انسانی زندگی کا مقصد
قرآن کی سورہ الذاریات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (51:56) یعنی میں نے جن اورانسان کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اِس میں ’’لیعبدون‘‘ کی تشریح صحابیٔ رسول، ابن عباس نے ’’لیعرفون‘‘ سے کی ہے، یعنی خالق کی معرفت کے لیے۔ یہی بات ایک روایت میں اِن الفاظ میں آئی ہے: كنت كنزًا مخفيًا فأحببت أن أعرف فخلقت خلقًا (کشف الخفاء، حدیث نمبر 2016 )
حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی شروع سے آخر تک معرفت کا ایک سفر ہے۔ اِس سفرِ معرفت کا ابتدائی حصہ موجودہ دنیا میں گزرتا ہے، اور اس کا انتہائی اور ابدی حصہ آخرت کی دنیا میں گزرے گا۔ معرفت ایک لامتناہی سمندر ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اِس لا متناہی سفر کا مسافر بنے، موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں بھی اور موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں بھی۔
موجودہ دنیا کے بارے میں قرآن میں آیا ہے: وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (14:34) یعنی خدا نے تم کو ہر اُس چیز میں سے دیا جس کو تم نے اس سے مانگا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ وہ معرفت کا سفر طے کرے، لیکن جینے کے سامان کے طورپر اس کو وہ تمام چیزیں دے دی گئی ہیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے۔ آخرت کی زندگی بھی حقیقۃً معرفت کی زندگی ہے۔ دنیا کی زندگی میں معرفت کا جو سفر ابتدائی طور پر شروع ہوا تھا، وہ آخرت کی زندگی میں بھی اپنے اعلیٰ ترین صورت میں جاری رہے گا۔ آخرت میں انسان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ خالق کا براہِ راست مشاہدہ کرے، وہ خالق کا شریکِ مجلس بنے، وہ خالق سے کلام کرسکے۔ تاہم آخرت میں انسان خدا کا مہمان بن کر رہے گا۔ دنیا میں زندگی کی جو چیزیں اس کو درجۂ ضرورت میں ملی تھیں، وہ آخرت میں انسان کو درجۂ اشتہاء (41:31) میں حاصل ہوجائیں گی۔