معرفت کا استحقاق
ایک حدیث قدسی اِن الفاظ میں آئی ہے:الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا، قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4090) یعنی اللہ نے فرمایا کہ — کبریائی میری چادر ہے، اور عظمت میرا اِزار ہے، اِن دونوں میں سے کسی کے معاملے میں جو شخص مجھ سے نزاع کرے گا، میں اُس کو آگ میں پھینک دوں گا۔
اِس حدیثِ قدسی سے تواضع (modesty) کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے ساتھ انسان کی نسبت صرف حقیقی تواضع کی سطح پر قائم ہوتی ہے۔ انسان کے اندر اگر ایک ذرہ کے برابر بھی اپنی بڑائی کا احساس پایا جائے تو خدا سے اُس کی نسبت ہی نہیں قائم ہوگی، اور جس آدمی کی نسبت خدا سے قائم نہ ہو، اُس کا حال یہ ہوگا کہ وہ معرفت کا لفظ بولے گا، لیکن وہ معرفت سے کلی طورپر بے خبر رہے گا۔ حقیقی تواضع کی پہچان یہ ہے کہ— آدمی کا حال یہ ہوجائے کہ تعریف اُس کو خوش نہ کرے اور تنقید سے اس کو ناگواری نہ ہو۔
جس آدمی کے اندر حقیقی تواضع نہ ہو، وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس احساس میں مبتلا رہتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں۔ اِس قسم کا احساس اس کے لیے خدا سے تعلق قائم کرنے میں حتمی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اِس کی مثال یہ ہے کہ سوکھی ہوئی زمین میں پانی ڈالا جائے تو وہ اس کو پوری طرح جذب (absorb) کرلے گی۔ اِس کے برعکس، گیلی زمین پانی کا ایک قطرہ بھی جذب نہیں کرے گی۔ متواضع انسان (modest man) اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آنے والے معرفت کے فیضان (inspiration) کو پوری طرح قبول کرے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر کامل تواضع نہ ہو، اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ وہ معرفت کے فیضان کو قبول کرنے کے لیے اس کا آخِذ (recipient)نہ رہے گا، وہ معرفت کی بارش کے ماحول میں بھی معرفت سے محروم رہے گا۔