معرفت کی قیمت
ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ مجھ کو بتائیے کہ میں خدا کی معرفت کیسے حاصل کروں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی شادی ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، میرے کئی بچے بھی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ اپنے بچوں کے لیے تحفہ لاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، کبھی کبھی لاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ نہیں، آپ باربار تحفہ لاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ روزانہ نہیں لاتا، میں نے کہا کہ یہ آدھا جھوٹ ہے۔کوئی بھی شخص ہر روز اپنے بچوں کے لیے تحفہ نہیں لاتا۔ جوشخص اِس قسم کا تحفہ لاتا ہے، وہ صرف کبھی کبھی لاتا ہے۔
اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ معرفت کی باتیں کرتے ہیں، لیکن وہ معرفت سے خالی ہوتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ معرفت چاہتے ہیں، لیکن وہ معرفت کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اور اِس دنیا میں کوئی بھی چیز قیمت ادا کیے بغیر نہیں ملتی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ جس چیز کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہو، اس کی وہ بات بھی نہ کرے۔ کیو ں کہ یہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ معرفت کے الفاظ بولتا ہے، لیکن وہ معرفت کی اہمیت کو نہیں جانتا۔
کہاجاتاہے: الْعِلْمُ:شَيْءٌ لَا يُعْطِيكَ بَعْضَهُ حَتَّى تُعْطِيَهُ كُلَّكَ (الفقيه و المتفقه للخطيب البغدادي، 2/204)علم ایک ایسی چیز ہے کہ تم کو اپنا جزصرف اُس وقت دیتی ہے، جب کہ تم اس کو اپنا کُل دے دو۔ یہی بات معرفت کے لیے درست ہے۔ معرفت کی قیمت یہ ہے کہ آدمی اپنا سب کچھ اُس کو دے دے، وہ اُس کو اپنا واحد کنسرن بنائے، وہ معرفت کی سوچ لے کر شام کو سوئے اور معرفت کی سوچ کے ساتھ صبح کو جاگے، وہ اپنے آپ کو معرفت میں اتنا زیادہ غرق کرے کہ وہ اُس کا خواب دیکھنے لگے۔ معرفت کی قیمت کامل حوالگی ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو معرفت کے حوالے نہ کرے، معرفت کے دروازے بھی اس کے لیے نہیں کھلتے۔