جنتِ قریب، جنت بعید
قرآن کی سورہ القمر میں اہلِ جنت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ (54:54-55) یعنی بے شک اللہ سے ڈرنے والے لوگ باغوں میں اور نہروں میں ہوں گے، بیٹھے ہوئے سچائی کی سیٹ پر، قدرت والے بادشاہ کے پاس۔
قرآن کی اِس آیت اور دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے دو درجے ہیں— ایک، جنت قریب، اور دوسری، جنت بعید۔ جنت قریب، خدا کے پڑوس میں ہوگی۔ یہاں وہ لوگ بسائے جائیں گے جو اعلیٰ معرفت والے لوگ ہوں گے۔ جنت بعید سے مراد خدا کے پڑوس سے دور کی جنت ہے۔ اِس جنت میں عام اہلِ ایمان کو جگہ ملے گی۔ عام اہلِ ایمان بھی جنت میں جگہ پائیں گے، لیکن ان کو جنت ِ بعیدمیں جگہ ملے گی، نہ کہ جنت قریب میں۔
اعلیٰ معرفت والے لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (2:165)۔ یعنی جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ محبت اللہ سے رکھنے والے ہیں۔ یہ وہ اصحابِ معرفت ہیں جنھوں نے اللہ کو ایسی برتر ہستی کے طورپر دریافت کیا جو کامل طور پر ان کے دل ودماغ پر چھاگیا۔ ان کی ساری محبتیں ایک اللہ کے لیے وقف ہوگئیں۔ اللہ وحدہ لاشریک ہی اُن کا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern) بن گیا۔ اُن کی سوچ تمام تر اللہ والی سوچ (God-oriented thinking) بن گئی۔
جن لوگوں کو اللہ سے محبت کے درجے کا تعلق ہوجائے، وہ اللہ کے حضور (presence) میں جینے لگتے ہیں۔ اُن کو دنیا ہی میں اللہ کی قربت حاصل ہوجاتی ہے۔
ایسے لوگوں کو دنیا میں یہ قربت (closeness) نفسیات کی سطح پر ملتی ہے، آخرت میں اُن کو قربت کا یہ تجربہ عملی سطح پر ہونے لگے گا۔ وہ دنیا ہی کی زندگی میں خدا کی قربت کا تجربہ کررہے تھے، آخرت میں اُنھیں قربتِ الٰہی کے مزید اعلیٰ درجات حاصل ہوجائیں گے۔