خاموشی اور معرفت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طَوِيلَ الصَّمْتِ (مسند احمد، حدیث نمبر 20810) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خاموش رہتے تھے۔ حدیث کی کتابوں میں خاموشی (silence) کی اہمیت کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ مثلاً: عَلَيْكُمْ بِالصَّمْتِ (سنن الدّارمی، حدیث نمبر 2484) یعنی تم لوگ خاموشی کو لازم پکڑو۔
فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018 ) ۔یعنی مومن کو چاہیے کہ وہ بہتر بات بولے یاوہ خاموش رہے۔
مَنْ صَمَتَ نَجَا (مسند احمد، حدیث نمبر 6481) یعنی جو خاموش رہا، اس نے نجات پائی۔
إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ يَكُونَ …صَمْتِي فِكْرة (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1159) یعنی میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میری خاموشی غور و فکر کی خاموشی ہو۔
خاموش رہنا صرف خاموش رہنا نہیں ہے، خاموش رہنے کا مطلب ہے— سوچنا اور غور وفکر کرنا۔ ایک مومن جب خاموش رہے گا تو وہ اپنے رب کے بارے میں سوچے گا، اسی کا نام معرفت ہے۔ خاموشی معرفت کا دروازہ ہے۔ سچی خاموشی آدمی کو سچی معرفت تک پہنچاتی ہے۔
خاموشی آدمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچائے۔ وہ اپنے مشاہدات اور تجربات میں توجیہہ (explanation) کا اضافہ کرے۔ وہ سادہ معلومات کو بامعنی معلومات بنائے۔ وہ عالم ِ ظاہر سے نکل کر عالم باطن کا سفر کرے۔ وہ نفسیات کی سطح پر خدا اور فرشتوں سے رابطہ (contact) قائم کرے۔ یہ تمام چیزیں آدمی کی معرفت میں اضافہ کرتی ہیں۔ معرفت کا ذریعہ غور وفکر ہے، او رخاموشی کے بغیر غور وفکر کا عمل ممکن نہیں۔ خاموشی کسی انسان کو غیرخدا سے دور، اور خدا سے قریب کردیتی ہے۔ خاموشی کسی انسان کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ پورے عالم ِ وجود سے معرفت کی غذا حاصل کرے، اُس کا عارفانہ سفر غیر منقطع طورپر (non-stop) جاری رہے۔