معرفت الٰہی
خدا کی معرفت (realization of God) ایک شعوری دریافت ہے۔ خداکی معرفت کسی کو اِس طرح نہیں ہوسکتی کہ وہ اللہ، اللہ، کی لفظی تکرار کرے، یا مراقبہ کرکے وہ اپنے آپ کو اِس قابل بنائے کہ دل کی ہر دھڑکن میں اس کو اللہ اللہ کی آواز سنائی دینے لگے۔ اِس قسم کی چیزیں ایک غیر متعلق ورزش کی حیثیت رکھتی ہے، ان کا خداکی معرفت سے کوئی تعلق نہیں۔
حدیث میں آیا ہے : خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227) یعنی اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ اِسی کو لے کر ایک عربی مقولہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ(حلیۃ الاولیاء، 10/208)، یعنی جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
یہ بات بلا شبہ بہت بامعنی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس طرح ایک انا (I) ہے، اُسی طرح خدا زیادہ بڑے پیمانے پر ایک انا ہے۔ یہ شعوری انا، ساری کائنات میں ایک استثنا کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ واقعہ انسان کی اپنی حیثیت کو بتاتا ہے، اور اِسی کے ساتھ وہ خدا کے وجود کو بھی ثابت کرتا ہے۔ اِس لیے کہ اگر اِس کائنات میں انسان کی صورت میں ایک چھوٹا استثنا (small exception) موجود ہے تو یہ واقعہ اپنے آپ میں اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں ایک بڑا استثنا (big exception) بھی یقینی طورپر موجود ہے۔ انسان کا وجود لازمی طور پر خدا کے وجود کا ثبوت بن جاتا ہے۔
اِسی بات کو حدیث میں اِن الفاظ میں کہاگیا ہے کہ — اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا، یعنی جس طرح خدا ایک استثنائی وجود ہے، اُسی طرح انسان بھی کائنات میں ایک استثنائی وجود کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان اگر اِس استثنا کے ظاہرہ پر غور کرے تووہ یقینی طورپر خدا کو دریافت کرلے گا، وہ پکار اٹھے گا —میں ہوں، اِس لیے یقینی طورپر خدا بھی ہے:
I am, therefore, God is.