منفی سوچ نہیں
حدیث میں آیا ہے کہ تم إمّعۃ نہ بنو، یعنی تم یہ نہ کہو کہ دوسرا شخص تمھارے ساتھ جو سلوک کرے گا، وہی سلوک تم اس کے ساتھ کروگے۔ اِس کے بجائے تمھارا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص تمھارے ساتھ برا سلوک کرے گا، تب بھی تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کروگے (لاَ تَكُونُوا إِمَّعَةً، تَقُولُونَ:إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا، وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلاَ تَظْلِمُوا)۔سنن الترمذی، حدیث نمبر 2007 ۔
معرفت صرف اُن عورتوںاور مردوں کو ملتی ہے جو ہمیشہ مثبت سوچ (positive thinking) کے ساتھ رہنے والے ہوں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کے لیے بھی موافق حالات کا ملنا ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں مثبت سوچ پر قائم رہنے کا فارمولا (formula) صرف ایک ہے، اور وہ ہے — یک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) یعنی یک طرفہ طور پر دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، خواہ وہ اچھا سلوک کرتا ہو یا برا سلوک۔
معرفت صرف اُس سینے میں جگہ پاتی ہے جو مکمل طورپر منفی احساس سے خالی ہو۔ جس دل کے اندر نفرت اور غصہ اور انتقام موجود ہو، اُس دل میں کبھی معرفت جگہ نہیں پائے گی۔ انسان ایک ایسی دنیا میں رہتا ہے جہاں خود قانونِ فطرت کے تحت روزانہ ناخوش گوار تجربات پیش آتے ہیں۔
ایسی حالت میں کسی آدمی کے لیے معرفت کے حصول کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرے کہ وہ منفی تجربہ (negative experience) کو مثبت سبق میں تبدیل کرسکے۔ وہ ناخوش گوار حالات میں بھی اپنی مثبت سوچ پر قائم رہے۔ وہ اپنے اندر وہ برتر سوچ (high thinking) پیدا کرے جس کے بعد آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ ماحول سے اثر قبول کئے بغیر اپنی بلند فکری کو برقرار رکھے۔ یہی وہ صفت ہے جو آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اس کے معرفت کا سفرِ رُکے بغیر ہر حال میں جاری رہے۔