معرفت کیا ہے
معرفت کے لفظی معنی پہچاننے کے ہیں۔ دینی اصطلاح میں، معرفت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کو پہچانے۔ وہ اپنے شعور کو اِس طرح بیدار کرے کہ اس کو خالق اور مخلوق اور عبد اور معبود کے درمیان تعلق کی گہری پہچان ہوجائے۔ معرفت شعوری دریافت کا نام ہے، وہ کسی پراسرار چیز کا نام نہیں۔
معروف لغوی اور مفسر راغب الاصفہانی (وفات1108 ء) نے لکھا ہے: المعرفۃ والعرفان إدراك الشیٔ بتفکر وتدبر لأثرہ، ومعرفۃ البشر للہ هی بتدبر اٰثارہ دون إدراك ذاتہ (المفر دات فی غریب القرآن، صفحہ 331 )۔ یعنی معرفت یا عرفان کا لغوی مطلب یہ ہے کہ آدمی کسی چیز کی علامت میں غور وفکر کرکے اس کی حقیقت کو دریافت کرے۔ اور اللہ کی معرفت یہ ہے کہ انسان اللہ کو اس کی نشانیوں میں غور وفکر کے ذریعے دریافت کرے، نہ کہ اس کی ذات میں۔
اِس سے معلوم ہوا کہ معرفت کا تعلق مجرد علم سے نہیں ہے، بلکہ معرفت کا تعلق غور وفکر سے ہے۔ علم کسی آدمی کے اندرمعرفت کی ابتدائی صلاحیت پیدا کرتا ہے، یعنی چیزوں پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر کرنا۔ جب کوئی شخص معرفت کو اپنا مرکزِ توجہ بناتا ہے، وہ مسلسل طور پر اس کے بارے میں سوچتا ہے، وہ تخلیقات میں خالق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس غور وفکر کے نتیجے میں اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرتی ہے۔اسی شخصیت کا نام عارف انسان ہے۔
جس شخص کو اِس قسم کی معرفت حاصل ہوجائے، وہ انتہائی سنجیدہ شخص بن جاتا ہے۔ وہ ہر چیز کو عارفانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ شدت کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنے لگتا ہے۔اس کی عبادت اور اس کے اخلاق ومعاملات میں معرفت کے اثرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس کو فرشتوں کی ہم نشینی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کا لگاؤ سب سے زیادہ اُن چیزوں میں ہوجاتا ہے جو معرفت کی غذا دینے والی ہوں۔ وہ معرفت کے ماحول میں جیتا ہے اور معرفت کی ہواؤں میں سانس لیتا ہے۔