معرفت کی راہ میں رکاوٹ
ایک امریکن اسکالر نے اسلام کا مطالعہ کیا۔اس کے بعد اس نے اسلام پر ایک کتاب لکھی۔ اپنی اِس کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ — اسلام کا سب سے بڑا کنسرن اللہ ہے:
The greatest concern of Islam is Allah.
یہ نہایت درست بات ہے۔ معرفت کا در وازہ صرف اُس کے لیے کھلتا ہے جو ایک اللہ کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنالے۔ اِسی طرح معرفت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اپنا واحد کنسرن نہ بنا سکے۔ معرفت کے سلسلے میں بلا شبہ یہی سب سے زیادہ اہم بات ہے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی آدمی جس چیز کو اپنا واحد کنسرن بنائے، وہی چیز اس کی سوچ کا مرکز بن جاتی ہے۔ وہ اُسی چیز کی یاد کو لے کر سوتا ہے اور اسی چیز کی یاد کو لے کر جاگتا ہے۔
وہ چیز آدمی کے دماغ پر اتنا زیادہ چھا جاتی ہے کہ عملاً دوسری تمام چیزیں اس کی یاد سے حذف ہوجاتی ہیں۔ آدمی اسی موضوع پر سوچتا ہے۔ وہ اسی کا چرچا کرتا ہے۔ وہ اسی کے بارے میں پڑھتا ہے۔ وہ اسی کے بارے میں ڈسکشن (discussion) کرتا ہے۔ آدمی کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اسی چیز کی یاد سے اس کو سکون ملتا ہے۔ وہ اکیلے میں بھی اسی چیز کی بابت سوچتا ہے اور جب وہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے تب بھی وہ اسی کاچرچا کرتا ہے۔
یہی کسی چیز کو اپنا واحد کنسرن بنانا ہے۔ اور خدا کی معرفت صرف اس انسان کے لیے مقدر ہے جو اِسی معنی میں خدا کو اپنا واحد کنسرن بنالے۔ جو شخص اس معنی میں خدا کو اپنا واحد کنسرن نہ بنا سکے، وہ یقینی طورپر خدا کی معرفت سے محروم رہے گا۔ خواہ زبانی طورپر وہ اللہ کا نام لے، وہ تسبیح کے دانوں پر الحمدللہ اور سبحان اللہ کا لفظی وظیفہ پڑھتا رہے۔
معرفت کے حصول میں اصل رکاوٹ یہ ہے کہ آدمی خدا کے سوا کسی اور چیز کو اپنا بڑا بنا لے۔ کسی کو بڑا بنانے کا یہ کام کبھی شعوری طور پر ہوتا ہے اور کبھی غیر شعوری طورپر، مگر نتیجہ دونوں کا ایک ہے، اور وہ ہے خدا کی اعلیٰ معرفت سے محرومی۔ جس عورت یا مرد کو خدا کی اعلیٰ معرفت مطلوب ہو، اس کو بہر حال یہ قیمت دینی پڑے گی۔ اس کو بہر حال یہ کرناہوگا کہ وہ اپنی توجہ کو دوسری چیزوں سے ہٹائے اور صرف ایک اللہ کو اپنا واحد مرکزِ توجہ بنالے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ ایک نفسیاتی قربانی ہے۔ جو شخص یہ قربانی دے، اُسی کو وہ ربانی نعمت ملتی ہے جس کو معرفت کہاجاتا ہے۔