اللہ کی محبت

قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے:وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (2:165) ۔ اِس آیت کے مطابق، اللہ کا مومن بننے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کے لیے حبّ شدیدپیدا ہوجائے۔ مذکورہ قرآنی آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے حب شدید کرتے ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ اہلِ ایمان کے اندر اللہ سے حب شدید ہوتی ہے۔

اصل یہ ہے کہ محبت جواب (response)  کے طور پر کسی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک انسان اللہ کو اپنے سب سے بڑے محسن اور منعم کی حیثیت سے دریافت کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سینے میں اللہ کے لیے محبت کا سمندر موج زن ہوجاتا ہے۔ اِسی کا نام حبّ شدید ہے۔ محبت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دریافت کا نتیجہ ہے، وہ محض ایک حکم کی تعمیل نہیں۔

انسان جب اپنے آپ کو احسنِ تقویم (التین، 95:4) کی حیثیت سے دریافت کرتاہے، جب وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ نے اس کے ساتھ تکریم (الاسراء،17:70) کا معاملہ کیا ہے، جب وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ نے اس کے لیے زمین اور آسمان کو مسخر کردیا ہے، جب وہ ان بے شمار نعمتوں کو دریافت کرتا ہے جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے، جب وہ اللہ کے اِس احسان کو دریافت کرتا ہے کہ اُس نے پیغمبر کے ذریعے اس کی ہدایت کا انتظام فرمایا، جب کہ وہ اس سے پوری طرح بے خبر تھا، جب وہ کائناتی پیمانے پر اللہ کی تخلیق اور اس کی ربوبیت کو دریافت کرتا ہے تو اس کے دل میں شکر کا بے پناہ جذبہ امنڈ پڑتا ہے۔ یہی شکرِ الٰہی محبتِ الٰہی کا منبع ہے۔ اِسی سے انسان کے اندر وہ گہرا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کو قرآن میں حب شدید کہا گیا ہے۔

اصل بات یہ نہیں ہے کہ محبت کرو، اصل بات یہ ہے کہ اللہ کو اتنے بڑے منعم کی حیثیت سے دریافت کرو کہ تمھارے اندر اللہ کے لیے حب شدید پیدا ہوجائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom