معرفت کی اہمیت
حضرت انس بن مالک الانصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا۔ اُس نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کون سا عمل افضل ہے (أيّ الأعمال أفضل)۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی معرفت (العلم باللہ عزوجل) اُس آدمی نے دوبارہ پوچھا کہ اے خدا کے رسول، کون سا عمل افضل ہے۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی معرفت۔ اُس آدمی نے کہا اے خدا کے رسول، میں آپ سے عمل کے بارے میں پوچھتا ہوں اور آپ مجھ کو علم کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: إن قلیل العمل ینفع مع العلم، وإن کثیر العمل لا ینفع مع الجهل (جامع بیان العلم وفضلہ، حدیث نمبر214)یعنی علم کے ساتھ تھوڑا عمل زیادہ نفع دیتا ہے، اور جہل کے ساتھ زیادہ عمل بھی نفع نہیں دیتا۔
اِس حدیث رسول میں علم سے مراد معرفت ہے۔ اِسی طرح قلیل اور کثیر سے مراد صرف مقداری معنیٰ میں کمی یا زیادتی نہیں ہے۔ اِس سے مراد دراصل یہ ہے کہ جو عمل معرفت یا داخلی اسپرٹ کے ساتھ کیا جائے، وہی دراصل عمل ہے۔ جو عمل معرفت یا داخلی اسپرٹ سے خالی ہو، اُس عمل کا کوئی اعتبار نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کا آغاز معرفت سے ہوتا ہے، یعنی اللہ کے وجود کی دریافت اور اللہ سے اپنے تعلق کی دریافت۔ اِسی دریافت کا نام ایمان باللہ ہے۔ جب کسی شخص کو اس قسم کا ایمان باللہ حاصل ہو جائے تو اس کا ظہور اس کی زندگی میں لازمی طورپر ہونے لگتا ہے۔ اُس کی سوچ، اس کا کلام، اُس کا سلوک، اس کے معاملات اور اس کی عبادت،ہر چیز میں اس کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس درجے کی معرفت، اُسی درجے کا اسلام، جس درجے کی شعوری معرفت، اُسی درجے کا خارجی عمل۔
معرفت اسلام کی روح (spirit) ہے، معرفت اسلام کی زندگی ہے۔ معرفت کسی آدمی کے اسلام کو زندہ اسلام بنا دیتی ہے— معرفت کے ساتھ عمل شاداب درخت کے مانند ہے، اورمعرفت کے بغیر عمل سوکھے درخت کے مانند۔