واسطہ کے بغیر
شعوری یا غیر شعوری طور پر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ تزکیہ کے لیے ایک پر اسرار واسطہ یا وسیلہ درکار ہے— اسلاف کا واسطہ، اکابر کا واسطہ، شیخ کا واسطہ،بزرگوں کا واسطہ اہل اللہ کا واسطہ، وغیرہ۔ واسطے کے اِس پراسرار تصور میں شیخ بذاتِ خود مطلوب بن جاتا ہے، جب کہ رہنما کے تصور میں اصل مقصود خدا ہوتا ہے اور رہنما کی حیثیت صرف ذریعہ کی۔ واسطہ کا یہ تصور یقینی طور پر بے بنیاد ہے۔ تزکیہ بلا واسطہ اللہ سے تعلق کے ذریعے حاصل ہوتاہے، کوئی واسطہ اِس معاملے میں ہر گز کار آمد نہیں۔
حقیقی تزکیہ ہمیشہ اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے۔ اللہ کی توفیق کے لیے کسی واسطہ کی ضرورت نہیں۔ اللہ کی توفیق ہر بندہ تک براہِ راست پہنچتی ہے۔ اس کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ ہے حقیقی معنوں میں تزکیہ کا طالب بن جانا۔
قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: وإذا سألک عبادی عنّی فإنی قریب، أجیب دعوۃَ الداعِ إذا دعانِ، فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی، لعلہم یرشدون (2: 186) یعنی جب میرے بندے تم سے میری بابت دریافت کریں تو (کہہ دوکہ) میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہیے کہ میرے بندے میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں، تاکہ وہ راہ یاب ہوں۔
قرآن کی اِس آیت میں ’’قریب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ تزکیہ کا ذریعہ حصولِ قربت ہے، نہ کہ حصول وسیلہ۔ جو آدمی اپنا تزکیہ چاہتا ہو، اس کو چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کو بیدار کرکے زیادہ سے زیادہ خدا کے قریب ہونے کی کوشش کرے۔
اِس مقصد کے حصول کے لیے کوئی بھی وسیلہ ہر گز مددگار نہیں ہوسکتا۔ تزکیہ یا تو براہِ راست تعلق باللہ کے ذریعے ملتا ہے، یا وہ سرے سے نہیں ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ واسطہ کا تصور تزکیہ کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ خدا جب انسان سے حبل الورید (50: 16) سے بھی زیادہ قریب ہے تو اس سے قریب ہونے کے لیے کسی واسطے کی کیا ضرورت— واسطہ یاوسیلہ کا تصور پراسرار نسبت کے عقیدہ پر قائم ہے، جب کہ رہنما یا مرشد کا تصور شعوری تعلق کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔