مبنی بر قلب، مبنی بردماغ
قرآن کی سورہ آل عمران کے آخری رکوع کو پڑھیے۔ اِس رکوع میں اولو الالباب (اہل عقل) کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے زمین و آسمان (کائنات) پر غور کرو۔ اس میں تم اللہ کی نشانیاں دیکھو گے۔ اس کے ذریعہ تم اپنے رب کو پہچانوگے۔ اس کے ذریعہ تم کو خداکے تخلیقی منصوبہ کا علم حاصل ہوگا۔ اس کے ذریعہ تم جنت اور جہنم کو دریافت کروگے۔ اس کے ذریعہ تم کو پیغمبر کی اہمیت معلوم ہوگی۔ غرض وہ تمام چیزیں جس کا تعلق براہِ راست یا بالواسطہ طور پر تزکیہ سے ہے، اُن سب کو اس رکوع میں کائناتی تفکرسے وابستہ کیاگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کا تزکیہ مبنی برعقل تزکیہ ہے، نہ کہ مبنی بر قلب تزکیہ۔اِس سلسلے میں ’’قلب‘‘ کا لفظ قرآن اور حدیث میں لٹریری معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، نہ کہ سائنسی معنوں میں۔
بعد کے زمانے میں، صوفیا کے اثر سے مسلمانوں میں مبنی بر قلب تزکیہ کا تصور رائج ہوگیا۔ اس تصور کے تحت یہ سمجھ لیا گیا کہ انسان کا قلب تمام ربانی حقیقتوں کا خزانہ ہے۔ مراقبہ (meditation) کے ذریعہ اس خزانہ تک پہنچو، اور پھر تم کو وہ چیز حاصل ہوجائے گی جس کو اسلام میں تزکیہ کہاگیا ہے۔ مگر مبنی بر قلب (heart-based) تزکیہ کا یہ تصور قرآن سے ماخوذ نہ تھا، بلکہ اس کا ماخذ تاریخ تھا۔ قدیم زمانے سے چوں کہ مبنی برقلب روحانیت (heart-based spirituality)کا تصور لوگوں کے درمیان چلا آرہا تھا، اس کے زیر اثر مضاہات (9:30) کے طور پر لوگوں نے اس کو اسلام میں داخل کردیا۔
جدید سائنس نے وہ علمی بنیاد فراہم کردی ہے جس کے تحت اسلامی تزکیہ کو دوبارہ مبنی بر دماغ تزکیہ کے طورپر زندہ کیا جائے۔جدیدتحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کا قلب خون کی گردش (circulation of blood) کے لیے صرف ایک پمپ (pump) کا کام کرتا ہے، قلب کے اندر سوچنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ سوچنے کی صلاحیت تمام تر صرف دماغ میں ہے۔ انسان کی زندگی کے تمام افعال سوچنے کے ذریعہ وجود میں آتے ہیں۔ تزکیہ کا معاملہ کوئی مستثنیٰ معاملہ نہیں۔ تزکیہ کا مقصد بھی دماغ کی سطح پر سوچنے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ قلب پر مفروضہ توجہ دینے سے۔ قلب پر توجہ دینا، اتنا ہی زیادہ بے بنیاد ہے، جتنا کہ حصولِ تزکیہ کے لیے ناخن یا بال پر توجہ دینا۔