تزکیہ اور عصری تقاضا
ہر زمانے کا ایک طرزِ فکر ہوتا ہے۔ آدمی کسی بات کو صرف اُس وقت قبول کرتاہے جب کہ وہ اس کے طرزِ فکر کے مطابق ہو۔ اِسی کو مائنڈ کا ایڈریس ہونا کہتے ہیں۔ انسانی ذہن کی رعایت جس طرح دوسرے معاملات میں ضروری ہے، اُسی طرح وہ تزکیہ کے معاملے میں بھی ضروری ہے۔
قدیم زمانہ روایتی طرزِ فکر کا زمانہ تھا، مگر موجودہ زمانہ سائنسی طرزِ فکر کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگوں کا تزکیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بات کو اِس طرح کہا جائے جس سے اُن کا ذہن ایڈریس (address) ہوسکے۔
تزکیہ کی اصل موجودہ زمانے میں بھی عین وہی ہے جو کہ قدیم زمانے میں تھی، البتہ دونوں میں ایک فرق ہے او ر وہ اسلوب کلام اور طرزِ استدلال (reasoning) کا فرق ہے۔ قدیم زمانے میں روایتی اسلوب لوگوں کے لیے موثر ہوسکتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں موثر تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ اسلوبِ کلام کو بدلا جائے۔ صرف اِسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ آج کا انسان تزکیہ کی اہمیت کو سمجھے اور اس کو اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
مثال کے طورپر قدیم زمانے میں ’’اصلاحِ نفس‘‘ کا لفظ بولا جاتا تھا۔ یہ لفظ قدیم روایتی ذہن کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھا، لیکن آج کا انسان اِس حقیقت کو اُس وقت زیادہ سمجھ پاتا ہے جب کہ اِس بات کو بتانے کے لیے لفظ بدل دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ ہر انسان مختلف اسباب سے متاثر ذہن (conditioned mind) کا کیس بن جاتا ہے۔ اس کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ڈی کنڈیشننگ کی جائے، اس کے ذہن کی تشکیلِ نو (re-engineering) کرکے اس کو اِس قابل بنایا جائے کہ وہ چیزوں کو اُن کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھے اور زیادہ درست طورپر ان کے بارے میں رائے قائم کرے۔ اِس اسلوبِ تزکیہ پر لوگوں کو مخاطب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مزکیّ کا مطالعہ وسیع ہو، وہ قدیم کے ساتھ جدید باتوں سے واقفیت رکھتا ہو۔ اِس کے بغیر موثر انداز میں جدید انسان کا تزکیہ نہیں کیا جاسکتا۔