تزکیہ سے پہلے
تزکیہ کا اصل محرک احتیاج (destitution) ہے۔ جو آدمی جتنا زیادہ اپنے احتیاج کو جانے گا، اتنا ہی زیادہ وہ تزکیہ کی طرف راغب ہوگا۔ ایسا انسان فطری طورپر اپنے احتیاج کی تکمیل تلاش کرے گا، اور اِسی تلاش کے نتیجے کا نام تزکیہ ہے۔
اِس دریافت کا آغاز خود اپنے وجود سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے انسان شعوری طور پر خود اپنی موجودگی (existence) کو دریافت کرتا ہے۔ یہ دریافت اس کے اندر یہ تجسس (curiosity) پیدا کرتی ہے کہ مجھ کو وجود بخشنے والا کون ہے۔ اِس طرح وہ اپنے خالق کو دریافت کرتاہے۔ اِس کے نتیجے میں اس کے اندر اپنے خالق کے لیے بے پناہ عظمت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
پھر وہ سوچتا ہے کہ میں مکمل طورپر ایک ضرورت مند شخص ہوں۔ میں خود اپنی طاقت سے اپنی کوئی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اِس کے باوجود میری ضرورت کی تمام چیزیں یہاں پیشگی طورپر موجود ہیں— زمین، پانی، ہوا، آکسیجن، روشنی، خوراک اور دوسری بے شمار چیزیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے، وہ سب یہاں یک طرفہ عطیہ کے طور پر میرے لیے موجود ہیں۔ اِس دریافت کے بعد وہ یہ جاننے کی کوشش کرتاہے کہ اِن تمام عطیات کا مُعطی (giver) کون ہے۔ اِس طرح وہ اپنے رب کو دریافت کرتا ہے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں اس کے اندر اپنے رب سے بے پناہ محبت پیدا ہوجاتی ہے۔
اِس طرح آدمی کی جستجو اُس کو اِس سوال تک پہنچاتی ہے کہ میری منزل (goal) کیا ہے۔ پھر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں وہ اپنی مطلوب منزل کو نہیں پاسکتا۔ یہ دریافت اس کو آخر کار جنت کا طالب بنا دیتی ہے، جہاں وہ اپنی منزل کو پالے اور اپنے تمام تقاضوں کی تکمیل کرسکے۔
اِسی طرح آدمی جب سوچتا ہے تو وہ دریافت کرتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کے لیے ایک مستند رہنمائی درکار ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام تر تلاش کے باوجود خود اپنی بنیاد پر اپنے لیے مستند رہنمائی معلوم نہیں کرسکتا۔ اِس دریافت کے بعد مزید تجسس اس کو اِس حقیقت تک پہنچاتا ہے کہ مستند رہنمائی کا واحد ذریعہ پیغمبر (prophet) ہے۔ اِس طرح وہ اپنے دل کی پوری آمادگی کے ساتھ پیغمبر کو اپنا رہنمابنا لیتا ہے۔
اِن دریافتوں کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے اندر تواضع (modesty) پیدا ہوتی ہے۔ وہ خالق کی عظمتوں میں جینے لگتا ہے۔ خدا کا تخلیقی نظام اس کے لیے خدا کی مسلسل یاد کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جنت اس کے لیے اس کے سب سے بڑے مطلوب کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ پیغمبر کو وہ اپنے رہبرِ کامل کے طورپر قبول کرلیتا ہے— یہی وہ تمام عارفانہ تجربات ہیں جن کے مجموعے کا نام تزکیہ ہے۔