اعترافِ حقیقت
اعلیٰ انسانیت یہ ہے کہ آدمی حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرے۔ کسی انسان کے لیے اصل چیز یہی ہے۔ اکتشافِ حقیقت (discovery of reality) کا نتیجہ اعتراف (acknowledgement) ہے۔ آدمی اگر حقیقتِ واقعہ سے بے خبر ہو تو وہ ایک جاہل (ignorant) انسان شمار ہوگا۔ حقیقتِ واقعہ کی دریافت کے بعد اگر کسی شخص کا حال یہ ہو کہ وہ اس کو دل کے اندر تو محسوس کرے، لیکن زبان سے بول کر وہ اس کا اعلان نہ کرے تو یہ روش منافقت کی روش ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ حقیقت واقعہ کی دریافت کے بعد وہ اس کو اصل ہستی کے بجائے کسی اور سے منسوب کردے، یا وہ خود اس کا کریڈٹ لینے لگے تو ایسا آدمی جھوٹ (falsehood) پر کھڑا ہوا ہے۔
یہ عمل کو ئی سادہ عمل نہیں۔ یہ دراصل صحیح رخ پر انسانی شخصیت کا ارتقا ہے اور اِسی کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔ تزکیہ کسی پراسرار چیز کا نام نہیں ہے۔ تزکیہ اِس شعوری بیداری کا نتیجہ ہے کہ آدمی ہر چیز کو خدا کے خانے میں ڈال سکے، ہر تجربہ اس کے لیے خدا سے تعلق بڑھانے کا ذریعہ بن جائے۔ اِنھیں تجربات کے دوران وہ اعلیٰ شخصیت بنتی ہے جس کو مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ صحیح انتساب (right attribution)اور غلط انتساب (wrong attribution) کا معاملہ ہے۔ واقعات کو غلط طورپر کسی سے منسوب کرنا، اپنی روح کو آلودہ کرنا ہے، یہ تزکیہ کے موقع پر اپنے آپ کو تزکیہ سے محروم کرلینا ہے۔
اِس کے برعکس، جب آدمی واقعات کو خالقِ حقیقی کی طرف منسوب کرے تو اُس نے اپنی روح کو اوپر اٹھایا۔ تزکیہ کے موقع کو استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو وہ انسان بنایا جس کو تزکیہ یافتہ انسان کہاجاتا ہے۔ تزکیہ کسی خلا میں نہیں ہوتا، تزکیہ ہمیشہ حقیقی زندگی میں ہوتا ہے۔ تزکیہ کے لیے جو چیز مطلوب ہے، وہ بیدار ذہن (awakened mind) ہے، نہ کہ تخلیہ میں کئے ہوئے کسی قسم کے پُراسرار اعمال۔