تزکیہ کی حقیقت
پیغمبر کے فرائض میں سے ایک فریضہ وہ ہے جس کے لیے قرآن میں تزکیہ (2: 129) کا لفظ آیا ہے۔ ہر مومن کی یہ لازمی ضرورت ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کرے۔ تزکیہ کے بغیر وہ اعلیٰ شخصیت نہیں بنتی جس کو قرآن میں ربانی شخصیت (3: 79) کہا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ ہی کسی انسان کے لیے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گا (20: 76)۔
تزکیہ کا لفظی مطلب نمو یا افزائش (growth) ہے۔ اِس نمو کی ایک مادّی مثال درخت ہے۔ درخت ایک بیج کی نمو پذیری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک بیج موافق ماحول پاکر بڑھنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک ہرا بھرا درخت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی تزکیہ کا بھی ہے۔ اِس اعتبار سے،تزکیہ کو روحانی ارتقا یا ذہنی ارتقا (intellectual development) بھی کہا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سے امکانات (potentials) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ انسانی شخصیت کے اِن امکانات کو واقعہ(actual) بنانے کا نام تزکیہ ہے۔ اِس اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگا کہ تزکیہ کا مطلب ہے — ربانی بنیادوں پر انسانی شخصیت کی تعمیر ۔
آدمی جب ایمان لاتا ہے تو وہ دراصل تزکیہ کے سفر کا آغاز کرتا ہے، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے وہ ایک مُزکیّٰ انسان، یا ذہنی اور روحانی اعتبار سے ایک ارتقا یافتہ شخصیت (developed personality) بن جاتا ہے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو آخرت کی ابدی جنت (eternal paradise)میں داخلہ ملے گا۔
تزکیہ کسی پُراسرار چیزکا نام نہیں۔ تزکیہ کا ذریعہ مراقبہ (meditation)نہیں ہے،بلکہ تزکیہ کا ذریعہ غوروفکر (contemplation) ہے۔ اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں غور وفکر کرنا اور اُن سے معرفت کا ذہنی یا فکری رزق حاصل کرنا، یہی وہ عمل (process) ہے جس سے آدمی کے اندر مزکّٰی شخصیت بنتی ہے۔ تزکیہ ایک معلوم حقیقت ہے، نہ کہ کوئی مجہول حقیقت۔ یہ تزکیہ انسان کی اپنی کوشش سے حاصل ہوتا ہے، کسی مفروضہ بزرگ کے پُراسرار فیض سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔