تزکیہ: روحانی خوراک
جسم کی ایک خوراک ہے۔ یہ خوراک جسم کو پہنچائی جائے تو جسم صحت مند ہوجائے گا۔ اِسی طرح روح کی ایک خوراک ہے۔ یہ خوراک جب روح کو پہنچائی جاتی ہے تو روح صحت مند ہو جاتی ہے۔ اِسی عمل کا نام تزکیۂ نفس ہے اور اِسی صحت مند روح کو مصفّیٰ اور مزکیّٰ روح کہا جاتا ہے۔
قرآن کے مطابق، روح کی یہ خوراک تفکیر (3: 191) ہے۔ آدمی کے اردگرد ہر وقت کچھ واقعات پیش آرہے ہیں۔ سماجی، تاریخی، کائناتی، ہر سطح پر اور ہر آن ان واقعات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ اِن واقعات کو لے کر سوچنا اور اُن سے عبرت اور نصیحت لینا، یہی روح کی خوراک ہے۔
جو شخص اپنے شعور کو اتنا ترقی دے کہ اُس کو گرد وپیش کے واقعات میں خدائی کرشمے دکھائی دیں، جو اُس کے لیے خدا کو یاد دلانے کا ذریعہ بن جائیں تو ایسے شخص نے گویااپنی روح کے لیے رزقِ ربانی کا ایک دسترخوان حاصل کرلیا۔ اس کی روح اِس دستر خوان سے اپنی صحت مندی کی خوراک حاصل کرتی رہے گی، یہاں تک کہ وہ اپنے رب سے جاملے۔
تزکیہ کا اہم ترین ذریعہ یہ ہے کہ اپنے اندر عبرت پذیری کے مزاج کو جگایا جائے۔ عبرت پذیری گویا تزکیہ کی زمین ہے۔ یہی وہ زمین ہے جس پر تزکیہ کی فصل اگتی ہے۔ کسی اور جگہ اس کو اگانا ایسا ہی ہے جیسے پتھر کی چٹان پر ایک ہرا بھرا درخت اگانے کی کوشش کرنا۔
تزکیہ کا ذریعہ رزقِ رب ہے، نہ کہ رزقِ شیخ۔ تزکیہ اُس عمل کا نتیجہ ہے جو بندہ اور خدا کے درمیان نفسیاتی تعلق کے ذریعے براہِ راست قائم ہوتا ہے، تزکیہ کسی واسطے کے ذریعے نہیں ملتا۔ تزکیہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک خدائی عطیہ ہے، نہ کہ ایک انسانی عطیہ۔
تزکیہ وہ نعمت ہے جو کسی انسان کو براہِ راست خدا سے ملتی ہے۔ کسی انسان کے واسطے سے جو تزکیہ ملے، وہ کچھ اور ہوسکتا ہے، لیکن وہ تزکیہ نہیں ہوسکتا۔