عبادت میں اجتہاد نہیں
ایک عالم ایک مشہور صوفی بزرگ کی خانقاہ میں گئے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ لوگ ذکر بالجہر اور دوسرے متصوفانہ اعمال میں مشغول ہیں۔ مذکورہ عالم نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے: مَن أحدث فی أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 2697)
یعنی جوشخص ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالے، جو اس میں نہ ہو، تو وہ قابلِ رد ہے۔ عالم نے کہا کہ یہ متصوفانہ اعمال جو آپ کے یہاں رائج ہیں، وہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں نہیں تھے، اِس لیے وہ اِحداث(innovation) کا درجہ رکھتے ہیں۔ مذکورہ بزرگ نے جواب دیا کہ حدیث میں ’’إحداث فی الأمر‘‘ (دین میں بدعت) کی ممانعت ہے، اُس میں ’’إحداث للأمر‘‘ (دین کے لیے بدعت) کی ممانعت نہیں ہے اور تصوف کے یہ طریقے احداث للامر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مذکورہ حدیثِ رسول کی یہ توجیہہ غیر علمی توجیہہ ہے، وہ حدیث کے الفاظ سے ہر گز نہیں نکلتی۔ حدیث میں یہ لفظ آیا ہے کہ: ما لیس منہ (جو اُس میں نہ ہو)، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین چھوڑا ہے، اُس دین میں وہ موجود نہ ہو۔
ایسی حالت میں اصل مسئلہ فی یا لام کے صلہ (preposition) کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دین ہم کو ملا ہے، اس میں بعد کا یہ اضافہ موجودتھا یا موجود نہیں تھا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ذکر بالجہر جیسی چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوڑے ہوئے دین میں موجود نہیں، اور جب وہ رسول اللہ کے چھوڑے ہوئے دین میں موجود نہیں ہیں، تو فی اور لام جیسے نکتوں کے ذریعے اس کو دینِ محمدی میں شامل کرنا، صرف ایک مبتدعانہ جسارت ہے۔ اِس قسم کا نکتہ ایسے اضافوں کے لیے کوئی قابلِ قبول وجہِ جواز نہیں۔
علماء کا اتفاقی مسلک ہے کہ — عبادت میں قیاس نہیں (لا قیاسَ في العبادات)، یعنی تعبّدی امور میں صرف تقلید ہے، اس میں کوئی اجتہاد نہیں۔ تعبدی امور میں کوئی استدلال صرف صریح نص پر قائم ہوسکتا ہے، اُس کو لفظی نکتوں کی بنیاد پر قائم نہیں کیا جاسکتا۔ تعبدی امور میں لفظی نکتوں کی بنیاد پر اجتہاد کرنا عقلی اعتبار سے غیرعلمی ہے اور دینی اعتبار سے ناقابلِ قبول جسارت۔