ڈی کنڈیشننگ کا عمل

تزکیہ ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ ہر صبح و شام جاری رہتا ہے۔ اِس معاملے کو حدیث میں ایک مثال کے ذریعے اِس طرح بتایا گیا ہے:  إنّ ہٰذہ القلوبَ تصدأ کما یصدأ الحدید إذا أصابہ الماء۔ قیل: یا رسول اللہ، وما جِلاؤہا۔ قال: کثرۃ ذکر الموت، وتلاوۃُ القرآن (البیہقی، بحوالہ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 2168 ) یعنی دلوں میں زنگ لگتا ہے، جیسے کہ لوہے میں زنگ لگتا ہے جب کہ اس پر پانی پڑ جائے۔ پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول، اس کو صاف کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ موت کو بہت زیادہ یاد کرنا اور قرآن کا مطالعہ کرنا۔

اِس حدیثِ رسول میں تمثیل کے ذریعے ایک نفسیاتی حقیقت کو بتایا گیا ہے، وہ یہ کہ سماج کے اندر رہتے ہوئے انسان بار بار ایسے حالات سے گزرتا ہے جو اُس کے اندر منفی جذبات پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً غصہ، نفرت، تشدد، انتقام، وغیرہ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اِن جذبات کو فوراً ختم کرے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ منفی جذبات انسانی ذہن کا مستقل حصہ بن جائیں گے، یہاں تک کہ اُن کو دور کرنا عملاً ناممکن ہوجائے گا۔

انسانی دماغ کے دو بڑے حصے ہیں — شعور (conscious mind) ، اور لاشعور (unconscious mind) ۔فطری نظام کے تحت، کوئی منفی احساس پہلے ذہن کے شعوری حصے میں داخل ہوتاہے۔ اگر اس کو فوراً ذہن سے نکالا نہ جائے تو وہ دھیرے دھیرے ذہن کے لاشعوری حصہ میں پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اس کو نکالنا سخت مشکل ہوجاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنا نگراں بنا رہے، وہ ہر لمحہ اپنے منفی احساس کو پراسس (process)کرکے مثبت احساس میں تبدیل کرتا رہے، یعنی وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرے، وہ اپنے ذہن کی تطہیر کرکے اس کی آلودگی کو ختم کرتا رہے۔ اِس تطہیر یا ڈی کنڈیشننگ کا ذریعہ ہے — اپنی موت کو بار بار یاد کرنا اور قرآن کی روشنی میں زندگی کے انجام پر غوروفکر کرتے رہنا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom