تزکیہ کا محرک
اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کا نشانہ (goal) صالح نظام قائم کرنا ہے۔ اِس صالح نظام کے لیے صالح افراد درکار ہیں۔ تزکیہ کا مقصد یہ ہے کہ ایسے صالح افراد تیار کئے جائیں جو صالح نظام بنا سکیں۔ یہ بات کہنے میں بظاہر بے ضرر معلوم ہوتی ہے، لیکن وہ تزکیہ کے پراسس کے لیے بلاشبہہ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس قسم کے تصورِ اسلام کے تحت کبھی تزکیہ کاعمل موثر طورپر جاری نہیں ہوسکتا۔
اِس امتحان کی دنیامیں انسان کو ایسے حالات کے درمیان رہنا پڑتا ہے جہاں ہر طرف تزکیہ کے خلاف اسباب موجود ہیں۔ ایسی حالت میں تزکیہ کا عمل جاری کرنے کے لیے نہایت طاقت ور محرک(strong incentive) درکار ہے۔ اور طاقت ور محرک وہی ہوسکتا ہے جس میں سارا فوکس اپنی ذات پر ہو، نہ کہ کسی خارجی نظام پر۔
حقیقی تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ آدمی یہ محسوس کرے کہ تزکیہ کے بغیر وہ ہر گز کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ تزکیہ نہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے ابدی محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اِس قسم کے طاقت ور محرک کے بغیر کبھی کوئی شخص تزکیہ پر کار بند نہیں ہوسکتا۔ حقیقی تزکیہ کے لیے شدید محاسبہ درکار ہوتا ہے اور شدید محاسبہ کبھی کسی خارجی نظام کی نسبت سے پیدا نہیں ہوسکتا۔
اگر میں نے اپنا تزکیہ نہ کیا تو میں ہلاک ہوجاؤں گا — اِس قسم کا گہرا محرک کسی شخص کے اندر صرف اُسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب کہ تزکیہ اس کے لیے ایک انتہائی ذاتی مسئلہ ہو، نہ کہ کوئی خارجی مصلحت یا دُور کی کوئی ضرورت۔ نظام ایک خارجی چیز ہے جس کا تعلق پورے معاشرے سے ہوتا ہے۔ اِس قسم کا حوالہ کسی آدمی کے اندر طاقت ور محرک بن کر داخل نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ ہمیشہ اپنی ذات کے حوالے سے کسی کی زندگی میں شامل ہوتاہے، نہ کہ کسی خارجی نظام کے حوالے سے۔