تزکیہ کا وسیلہ
تزکیہ کا وسیلہ کیا ہے۔ روایتی طورپر کچھ چیزوں کو تزکیہ کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے — نوافل، تلاوت، مسنون اذکار، مراقبہ، صحبت، بزرگوں کے واقعات، وغیرہ۔ اِس سوچ کا مطلب تزکیہ کو ایک مقرر کورس یا مینول (manual) جیسا معاملہ سمجھنا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ کا کوئی متعین کورس نہیں۔ تزکیہ ایک زندہ واقعہ ہے، اور زندہ عمل ہی کے ذریعے اس کو حقیقی طورپر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
تزکیہ کے مقصد کو حاصل کرنے کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ آدمی خدائی باتوں میں تدبر کرے، وہ اپنی سوچ کو متحرک کرے، وہ مسلسل غور وفکر کے ذریعے ہر ظاہر میں اس کے باطن کو دریافت کرے۔ یہی دریافت تزکیہ پسند آدمی کی غذا ہے۔ مثلاً آپ نے ایک چڑیا کو دیکھا۔ چڑیا کو دیکھ کر آپ کو یہ حدیثِ رسول یاد آئی کہ اہلِ جنت کے دل چڑیا کے مانند ہوں گے (أفئدتہم مثل أفئدۃ الطیر)۔
اِس کے بعد آپ اپنے بارے میں غور کرنے لگے کہ کیا میرا دل بھی چڑیا کے مانند ہے، کیا میں بھی اُسی طرح منفی سوچ سے خالی ہوں جس طرح چڑیا کا دل منفی سوچ سے خالی ہوتا ہے، کیا میں بھی اُسی طرح حرص سے پاک ہوں جس طرح چڑیا حرص سے پاک ہوتی، کیا میں بھی اُسی طرح بے ضرر (harmless) ہوں جس طرح چڑیا بے ضرر ہوتی ہے، کیا میں بھی اُسی طرح قانونِ فطرت کی پیروی کرتا ہوں جس طرح چڑیا قانونِ فطرت کی پیروی کرتی ہے۔ یہی سوچ، تزکیہ کی اصل روح ہے۔ اِس قسم کی احتسابی سوچ کے بغیر کسی شخص کا تزکیہ نہیں ہوسکتا۔
تزکیہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اپنی تعمیر آپ کا ایک عمل ہے۔ تزکیہ میں آدمی کو خود اپنا مزکیّ اور معلم بننا پڑتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کی صحبت یا کسی دوسرے شخص کی تبلیغ بذاتِ خود کسی کے لیے موثر نہیں بن سکتی۔ دوسرا کوئی شخص آپ کو ابتدائی رہنمائی دے سکتا ہے، لیکن اِس رہنمائی کو تکمیل تک پہنچانا، آپ کا اپنا کام ہے۔ تزکیہ کے عمل میں کسی دوسرے شخص کا حصہ اگر ایک فی صد ہے تو آپ کا اپنا حصہ ننانوے فی صد۔