تزکیہ اور محاسبہ
تزکیہ کوئی ایک بار کا عمل نہیں، یعنی ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک بار کوئی کورس کرے اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے ایک مزکیّٰ انسان بن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ ایک مسلسل عمل ہے۔ یہ عمل (process) آدمی کی زندگی میں ساری عمر جاری رہتا ہے، موت سے پہلے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
تزکیہ ایک خود احتسابی کا عمل ہے۔ اِس عمل میں آدمی کو خود اپنا نگراں بننا پڑتا ہے۔ جو آدمی تزکیہ کا طالب ہو، اس کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنے قول وعمل کی نگرانی کرتا رہے، وہ انتہائی بے لاگ انداز میں بار بار اپنا جائزہ لیتا رہے۔ خود احتسابی کا یہ عمل صرف اُس شخص کے اندر جاری ہوتا ہے جس کے اندر ندامت (repentance) اور محاسبہ (introspection) کی صلاحیت پائی جائے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔اِس دنیا کو بنانے والے نے اس کو اِس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر لمحہ آدمی کے لیے آزمائش کی صورتیں پیش آئیں، بار بار وہ نفس کے تقاضوں سے متاثر ہو، شیطان کی ترغیبات اس کو کسی غیر مطلوب چیز میں ملوث کردیں، ماحول کے اثر سے وہ کسی غلط چیز کاشکار ہوجائے، وغیرہ۔ اِس قسم کی تمام چیزیں تزکیہ کی ضد ہیں۔
آدمی کو اتنا زیادہ حساس ہونا چاہیے کہ وہ ہر ایسے موقع پر جاگ اٹھے، وہ ہر موقع پر اپنی تطہیر کی کوشش میں لگ جائے، وہ ہر ایسی آلودگی کے موقع پر دوبارہ اپنے آپ کو پاکیزہ بنائے۔ یہی تزکیہ ہے۔ اِس قسم کی خود احتسابی کے بغیر کوئی شخص مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا۔محاسبہ سے ذہنی ارتقا (intellectual development)حاصل ہوتا ہے، اور ذہنی ارتقا اِس بات کا ضامن ہے کہ تزکیہ کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر آدمی کے اندر جاری رہے۔