تزکیہ اور موت کی یاد
تزکیہ کے عمل کے لیے موت کی یاد بہت طاقت ور ذریعہ ہے۔ موت کی یاد تزکیہ کو فی الفور کرنے کے ایک کام کی حیثیت دے دیتی ہے۔ موت کی یاد آدمی کے اندر اِس پہلو سے ایک سینس آف ارجینسی (sense of urgency) پیدا کرتی ہے۔ موت آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ تزکیہ کے عمل میں تاخیر کا تم تحمل نہیں کرسکتے، تزکیہ کا کام آج کر ڈالو، کیوں کہ کل کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ تمھارے لیے موت کا دن ہوگا یا زندگی کا دن۔
موت کا تصور آدمی کو یاد دلاتا ہے کہ تم پر کسی بھی لمحہ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ تم مرجاؤ گے۔ اس کے بعد تم کو اُس سنگین صورتِ حال کا سامنا پیش آنے والا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یومَ یقوم الناسُ لربّ العالمین (83: 6) یعنی مالکِ کائنات کے سامنے انسان کا کھڑا کیا جانا۔ یہ وہ دن ہوگا جب کہ فرشتے انسان کو لے جاکر خدا کے سامنے پیش کردیں گے۔ خدا جو ہر کھلے اور چھپے کو جانتا ہے، وہ انسان سے اُس کے قول وعمل کا حساب لے گا۔ ایک حدیث کے مطابق، انسان کے قدم اُس وقت تک اللہ کے سامنے سے نہیں ہٹیں گے جب تک وہ اللہ کے سوالات کا جواب نہ دے دے (لاتزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یُسأل عن أربع)۔
موت کو یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے اِس نازک ترین لمحہ کو یاد کرے۔ وہ اُس آنے والے وقت کے بارے میں سوچتا رہے جو بہر حال اُس پر آئے گا۔ اُس دن اُس کے ابدی مستقبل (eternal future) کا فیصلہ کیا جائے گا۔
یہ سوچ بلا شبہہ ایک ایسی سوچ ہے جو آدمی کے اندر زلزلہ پیدا کردے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص اِس طرح موت کے بارے میں سوچے، وہ اپنے تزکیہ کے بارے میں بے حد فکر مند ہوجائے گا۔ وہ آخری حد تک یہ کوشش کرے گا کہ وہ ہر پہلو سے اپنا تزکیہ کر ڈالے، اِس سے پہلے کہ اُس پر موت آئے اور اس کے لیے اپنی اصلاح کا وقت باقی نہ رہے ۔