مثبت نفسیات کی اہمیت
چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں بسا دیا اور خود شام واپس چلے گئے ۔ بعد کو اسماعیل بڑے ہوئے تو انھوں نے قبیلہ جرہم کی ایک خاتون سے نکاح کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم دوبارہ وہاں آئے۔ اُس وقت ان کی ملاقات اسماعیل کی بیوی سے ہوئی۔ انھوں نے سخت حالات کی شکایت کی۔ حضرت ابراہیم اُن سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ جب اسماعیل واپس آئیں تو اُن کو میرا یہ پیغام دینا: غیِّر عتَبۃَ بابک (اپنے گھر کی چوکھٹ کو بدل دو)۔ اس کے بعد اسماعیل نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا اور ایک دوسری خاتون سے نکاح کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم دوبارہ پھر وہاں آئے۔دوسری خاتون سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کوئی شکایت نہیں کی، بلکہ حالات پر شکر کا اظہار کیا۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم نے کہا کہ اسماعیل آئیں تو اُن کو میرا یہ پیغام دے دینا: ثبّت عتبۃ بابک(یعنی اپنے گھر کی چوکھٹ کو باقی رکھو)۔ صحیح البخاری، کتاب أحادیث الأنبیاء
حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کو صحرا میں بسا دیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ فطرت کے سادہ ماحول میں ایک نئی نسل پیدا ہو جو توحید کے مشن کو لے کر اٹھے اور اس کو دنیا میں پھیلائے۔ حضرت ابراہیم کے مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اعلیٰ کام کے لیے جو افراد مطلوب ہیں، اُن کے اندر سب سے زیادہ یہ صفت ہونا چاہیے کہ وہ مثبت نفسیات میں جینے والے ہوں، وہ شکایات کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہوں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ تزکیہ کے عمل میں سب سے زیادہ اہمیت کس بات کی ہے، وہ یہ کہ آدمی مکمل طورپر اپنے آپ کو بے شکایت بنالے، شکایت کے اسباب ہوتے ہوئے وہ پوری طرح مثبت سوچ والا انسان بن جائے۔
منفی سوچ تزکیہ کی قاتل ہے، جب کہ مثبت سوچ تزکیہ کے لیے سب سے ضروری شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ منفی سوچ والا آدمی شیطان کا معمول (subject) بن جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، مثبت سوچ والا آدمی فرشتوں کی صحبت میں جینے لگتا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تزکیہ کاحصول فرشتوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔