تزکیہ اور علم
تزکیہ کے لیے ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی صاحبِ کمال کی صحبت حاصل کی جائے، کیوں کہ صاحبِ کمال کی ایک نظر انسان کو بدلنے کے لیے کافی ہوتی ہے، لیکن یہ نقطۂ نظر قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، تزکیہ کا مقصد آدمی کے خود اپنے غور وفکر سے حاصل ہوتا ہے۔ آدمی کے اندر صحیح مزاج ہو اور وہ کتابوں کا، نیز فطرت کا مطالعہ کرے تو اُس سے وہ ایسے معانی اخذ کرے گا جو اس کی شخصیت کا تزکیہ کرنے والے ہوں۔
قرآن کی سورہ فاطر میں پہاڑوں کا تذکرہ کرنے کے بعد یہ آیت آئی ہے: إنما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (35: 28) ۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ پہاڑوں کا علم یا واقعاتِ فطرت کا علم آدمی کے اندر اللہ کا خوف پیدا کرتا ہے، یعنی خوف کا ماخذ علم (learning) ہے۔ آدمی کے اندر جتنا زیادہ علم ہوگا، اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کی تخلیقی حکمتوں کو سمجھے گا اور اِس طرح وہ اپنی معرفت میں اضافہ کرے گا۔ تزکیہ کسی آدمی کو ذاتی علم کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، نہ کہ مفر وضہ باکمال کی نظر اور توجہ سے۔
مطالعہ آدمی کے اندر سوچنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔ مطالعہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ زیادہ گہرے انداز میں چیزوں سے معرفت کی غذا لے سکے۔ مثلاً ہر آدمی ہوا میں سانس لیتا ہے۔ ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اِس پر اللہ کا شکر ادا کرے، لیکن جو شخص نظامِ تنفس (respiratory system) کے بارے میں دریافت کردہ جدید معلومات کو جانتا ہو، اس کا شکر ہزاروں گنا زیادہ بڑھ جائے گا، اور اسی کے اعتبار سے اس کا تزکیہ بھی بہت زیادہ ترقی کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ علم آدمی کے تزکیہ کو زیادہ بڑا فریم ورک (framework) دیتا ہے۔ علم سے آدمی کو اپنے تزکیہ میں اضافے کے نئے گوشے معلوم ہوتے ہیں۔ تزکیہ کے لیے علم ایک قسم کے بوسٹر(booster) کا درجہ رکھتا ہے۔