تزکیہ اور دعا
دعا کیا ہے، دعا اُس کیفیت کے لفظی اظہار کا نام ہے جو ایک طرف اپنی عبدیت اور دوسری طرف خدا کی ربوبیت کو دریافت کرنے کے بعد ایک انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ مسنون دعاؤں کا معاملہ بھی اِس سے مختلف نہیں۔ مسنون دعا، معروف معنوں میں، مسنون الفاظِ دعا کا نام نہیں۔ مسنون دعا اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اکتشافی دعا کا نام ہے۔ ایک ربانی دریافت جب الفاظ میں ڈھل جائے تو یہی وہ دعا ہے جس کو مسنون دعا یا اکتشافی دعا کہا جاسکتا ہے۔
ایک حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ: أنا عند ظَنِّ عبدی بی، فلیظن بی خیر ما أحبّ۔ (ذخیرۃ الحفاظ لابن القیسراني، 5/2793)۔یعنی میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، تو اس کو چاہیے کہ وہ میرے بارے میں اچھا گمان کرے۔ یہ گمان کیا ہے، یہ دراصل خدا کی صفات میں سے کسی ایک صفت کو دریافت کرنے کا نام ہے، جو آدمی کو یہ موقع دے کہ وہ خدا کے بارے میں اچھا گمان کرے، وہ اُس سے خیر طلب کرے۔
مثال کے طورپر قرآن میں بتایاگیا ہے کہ: وآتاکم من کلّ ما سألتموہ (14: 34) یہ آیت کسی بندے کو دعا کا ایک پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) دیتی ہے جس کے حوالے سے وہ خدا کی رحمت کو انووک (invoke) کرسکے۔ وہ یہ کہے کہ خدایا، دنیا کی زندگی میں اپنی ضرورتوں سے واقف بھی نہ تھا کہ میں تجھ سے اُ س کا سوال کروں۔ تو نے میری فطرت کے تقاضوں کو سوال کا درجہ دے کر میری تمام دنیوی ضرورتوں کا انتظام کردیا۔ آخرت کے معاملے میں بار بار میں تجھ سے سوال کررہا ہوں، اب تو میرے سوال کو لازم کا درجہ دے کر آخرت میں بھی مجھے میری تمام مطلوب چیزیں عطا کردے۔
اِس قسم کی ایک دعا ہمیشہ ایک نفسیاتی طوفان کے بعد کسی آدمی کی زبان سے نکلتی ہے۔ اِسی نفسیاتی واقعہ کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔ تزکیہ اور دعا دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ جہاں تزکیہ کا واقعہ ہوگا، وہاں دعا بھی لازماً ظاہر ہوگی، اور جب دعا کا ظہور ہو تو وہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ اِس سے پہلے آدمی کے اندر تزکیہ کا واقعہ پیش آچکا ہے۔ تزکیہ کے بغیر دعا نہیں، اور دعا کے بغیر تزکیہ نہیں۔