تزکیہ ذریعہ ٔ قربت
انسان مخلوق ہے اور خدا اس کا خالق ہے۔ اِس لحاظ سے انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق سے آخری حدتک قریب ہو، مگر مختلف چیزیں انسان کو خدا سے دور کردیتی ہیں۔ مثلاً فخر، منفی سوچ، وغیرہ۔ تزکیہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اِس قسم کے منفی جذبات سے مکمل طورپر پاک کیا جائے۔ آدمی جیسے ہی اپنے آپ کو اس قسم کے غیر ربانی جذبات سے پاک کرتا ہے، اچانک وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے خالق سے آخری حد تک قریب ہوگیا ہے۔ وہ اپنے آس پاس خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ کرنے لگتا ہے۔
خدا سے گہری قربت صرف اُس وقت ہوسکتی ہے جب کہ انسان خدا کو اس کے اعلیٰ ترین اوصاف کے ساتھ دریافت کرے۔ مثلاً ہر انسان دنیا میں رہنے کے لیے بے شمار چیزوں کا محتاج ہے۔ یہ چیزیں اس نے خود نہیں پیدا کی ہیں، اس کا ایک دینے والا ہے اور وہ دینے والا بلاشبہہ خدا ہے۔ خدا ہی وہ ہستی ہے جو اس کا واحد منعم اور معطی (giver) ہے۔ یہ بلاشبہہ خدا کے یک طرفہ انعامات ہیں جن کی بنا پر وہ اِس دنیا میں زندہ اور قائم ہے۔ ایک لمحہ کے لیے اگر اِس یک طرفہ عطیہ کا سلسلہ ٹوٹ جائے تو انسان اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتا۔
جب ایک انسان اِس طرح خدا کو اپنے منعم کی حیثیت سے دریافت کرتاہے تو اس کے فطری نتیجہ کے طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اس کی روح کے اندر خدا سے محبت کا چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ وہ اُس حقیقت کی تصویر بن جاتا ہے جس کو قرآن میں: والذین آمنوا أشدّ حبًّا للہ (2: 165) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں سجدۂ قربت (96: 19) کا ذکر ہے۔ یہ سجدہ قربت کیا ہے۔ یہ سجدہ قربت دراصل اُس انسان کا سجدہ ہے جو اپنے رب کے لیے محبت اور خشیت سے سرشار ہو اور اِس سرشاری کے تحت وہ اپنے رب کے سامنے سجدہ میں گر پڑے — اِس قسم کا سجدہ ایک مومن کے لیے گویا کہ تزکیہ کی معراج ہے۔