مسنون اذکار
حدیث کی کتابوں میں ایسی روایتیں آئی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اوقات میں کچھ کلمات ادا کرتے تھے، جن کو ذکر ودعا کے کلمات کہاجاتا ہے۔ یہ کلمات عام طورپر مسنون ذکر یا مسنون دعا کے نام سے مشہور ہیں۔ عام تصور یہ ہے کہ یہ مسنون اذکار تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور تزکیہ یہ ہے کہ آدمی ان اذکار کو یاد کرلے، اور مختلف موقع پر ان کو دُہراتا رہے۔
مسنون اذکار کا یہ تصور ایک ناقص تصور ہے۔ مسنون اذکار دراصل مسنون کیفیات ہیں، نہ کہ سادہ معنوں میں صرف مسنون الفاظ۔ اِس معاملے میں اصل حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اعلیٰ معرفت کی بنا پر ربّانی کیفیات سے معمور رہتے تھے، آپ کی یہ داخلی حالت مختلف مواقع پر آپ کی زبان سے نکل پڑتی تھی۔
آج جو لوگ حدیث کی کتابوں کو پڑھتے ہیں، وہ صرف الفاظِ نبوی سے واقف ہوتے ہیں، وہ کیفیاتِ نبوی سے واقف نہیںہوپاتے۔ اِس بنا پر وہ الفاظ کو اصل سمجھ لیتے ہیں،کیوں کہ وہ کتا ب میں درج نہیں۔ مسنون اذکار کا یہ تصور مسنون اذکار کی تصغیر ہے، وہ مسنون اذکار کا صحیح تعارف نہیں۔
حقیقت کے اعتبار سے مسنون اذکار کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے شعور کو جگائے، وہ مسلسل تفکیری عمل کے ذریعے اپنے اندر ایسی شخصیت کی تعمیر کرے جو ربّانی کیفیات میں جینے والی ہو، یہ گویا کہ مسنون اذکار سے پہلے کی سنت ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مسنون اذکار سے پہلے کی سنت کو اپنے اندر زندہ کرے، اس کے بعد اس کی زبان سے ذکر ودعا کے جو کلمات نکلیں گے، وہی اس کے لیے مسنون اذکار ہوں گے۔ اس طرح کی ربّانی شخصیت تیار کیے بغیر جو آدمی مسنون اذکار کو دہرائے، وہ صرف الفاظ کی تکرار ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں مسنون اذکار پر عمل۔
لوگ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ مسنون اذکار ذکر کے مقدّس الفاظ ہیں، ان الفاظ میں پراسرار طورپر کچھ خواص چھپے ہوئے ہیں، مگر یہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسنون اذکار دراصل مسنون کیفیات کو بتانے والے الفاظ ہیں، نہ کہ مجرد طورپر صرف مسنون الفاظ۔