تزکیہ کا مقصد
قرآن کی سورہ الزمر میں اہل جنت کے معاملہ کو اِس طرح بتایا گیا ہے: ’’اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرے، وہ گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو جنت کے دروازے کھول دئے جائیں گے اور جنت کے محافظ اُن سے کہیں گے کہ سلام ہو تم پر، خوش حال رہو، پس تم جنت میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ کے لیے۔ اور وہ کہیں گے کہ شکر ہے اُس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کردکھایا اور اُس نے ہم کو اِس زمین کا وارث بنا دیا۔ ہم جنت میں جہاں چاہیں، مقام کریں۔ پس کیا خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا۔ اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ وہ عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد وتسبیح کرتے ہوں گے۔ اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ساری حمد اللہ کے لیے ہے، عالم کا خداوند‘‘۔ (39: 73-75)
الحمدللہ رب العالمین کی آیت سورہ الفاتحہ میں موجود دنیا کی نسبت سے آئی ہے۔ سورہ الزمر کے مذکورہ اقتباس میں یہ آیت دوبارہ آخرت کی دنیا کے لیے آئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ حمدِ خداوندی ہے۔ یہی چیز موجودہ دنیا میں بھی مطلوب ہے اور آخرت میں بھی یہی چیزمطلوب ہوگی— تزکیہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایسی پاک روحیں (purified souls) وجود میں آئیں جو آخرت میں مبنی بر حمد نظامِ حیات کا حصہ بن سکیں۔
موجودہ دنیا میں انسان کا ایک کام یہ تھا کہ وہ ایک تہذیب (civilization) کو وجود میں لائے۔ انسان نے بڑے پیمانے پر یہ کام انجام دیا، حجری دور (stone age) سے آغاز کرکے اُس نے اس کو الیکٹرانک د ور (electronic age) تک پہنچا دیا۔ یہ کام فطرت کے قوانین کو دریافت کرنے کے ذریعہ انجام پایا، لیکن عملاً یہ ہوا کہ انسان نے ایک صحیح کام میں غلط کام کو ملادیا۔ فطرت کی طاقتوں پر قابو پانے کے بعد وہ سرکش بن گیا، اس نے استبدادی نظام (despotic system) قائم کیا، اس نے آزادی کے نام پر انارکی (anarchy)پھیلائی، اس نے فیشن کے نام پر عریانیت (nudity) کو رواج دیا، وغیرہ۔
اِس لیے قیامت میں یہ ہوگا کہ صالح لوگوں کو منتخب کرکے ان کو یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ ربانی تہذیب کو زیادہ بہتر طورپر قائم کریں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: أن الأرض یر ثہا عبادي الصالحون (22: 105)
حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی معرفت کا ایک سفر ہے۔ یہ سفر دنیا سے لے کر آخرت تک چلا جارہا ہے۔ دنیا میں معرفت کا سفر محدود طورپر انجام پاتا ہے، آخرت میں معرفت کا سفر لامحدود طورپر جاری رہے گا۔ اِس سفر کو کامیابی کے ساتھ وہی شخص طے کرسکتا ہے جو اپنا تزکیہ کرکے اپنے آپ کو اس کا اہل بنائے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے کلمات اتنے زیادہ ہیں کہ اگر دنیا کے تمام سمندروں کو اور ان کے برابر مزید سمندروں کو سیاہی (ink) بنادیا جائے اور دنیا کے تمام درختوں کو قلم بنادیا جائے اور پھر اللہ کے کلمات کو لکھنا شروع کیا جائے تو تمام سمندروں کی سیاہی ختم ہوجائے گی ، مگر اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے (31: 27) ۔
یہ بات جو قرآن میں کہی گئی ہے، وہ خبر نہیں ہے بلکہ وہ انشاء ہے، یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے ان کلمات کو دریافت کریں اور اِس طرح وہ اپنی معرفت کو مسلسل بڑھاتے رہیں۔ قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: الحمد للہ رب العالمین (1:1) یہ آیت بھی خبر نہیں ہے، بلکہ وہ انشاء ہے۔ یہ آیت دریافتِ معرفت کے دنیوی آغاز کو بتاتی ہے۔ دوسری جگہ قرآن میں آخرت کے حوالے سے یہی آیت اِس طرح آئی ہے: وقیل الحمد للہ رب العالمین (39: 75)۔ یہ دوسری آیت دریافتِ معرفت کے اگلے مرحلے کو بتاتی ہے جوآخرت کے زیادہ بہتر ماحول میں ابد تک جاری رہے گا۔
ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ : إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری) اِس حدیث میں جس دینی تائید کا ذکر ہے، اس کا سب سے بڑا مصداق غالباً انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے سائنس دانوں کا عمل ہے۔ انھوں نےمعرفت کے حصول کے لیے ایک سائنٹفک فریم ورک دیا۔ آخرت میں اِس سفرِ معرفت کو جاری رکھنے کے لیے اہلِ ایمان کو زیادہ اعلیٰ درجے کے مؤیدین حاصل ہوں گے۔ یہ ملائکہ ہوں گے، جیساکہ قرآن میں آیا ہے: نحن أولیائکم فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرۃ (41: 31) ۔