تزکیہ کی شرط
تزکیہ کوئی فنّی علم نہیں۔ فنی علم کو لفظوں میں پوری طرح بیان کیا جاسکتا ہے، لیکن تزکیہ معرفت کا علم ہے اور معرفت کے علم کو الفاظ میں صرف جزئی طورپر بیان کرنا ممکن ہے، نہ کہ کلی طورپر۔ تزکیہ کی ہر تقریر یا تحریر ایک اور اضافہ چاہتی ہے، اور یہ اضافہ صرف وہ شخص کرسکتا ہے جوتزکیہ کا طالب ہو۔
تزکیہ کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ طالب تزکیہ اِس معاملے میں انتہائی حد تک سنجیدہ ہو، وہ ایک تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت رکھتا ہو، اُس کے اندر کامل آمادگی پائی جاتی ہو، وہ ہرقسم کے تعصبات (prejudice) سے خالی ہو، وہ ایک کامپلکس فری (complex free) انسان ہو، وہ چیزوں کو اُسی طرح دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جیسا کہ وہ واقعۃً ہیں۔ وہ ذاتی رجحانات کو الگ کرکے چیزوں کو دیکھ سکے، وہ اپنے خلاف باتوں کو بھی اُسی طرح سنے، جس طرح وہ اپنے موافق باتوں کو سنتا ہے، وہ کسی شرط کے بغیر حق کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو، وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج رکھتا ہو، وہ درست زاویہ نظر (right angle of vision) سے چیزوں کو دیکھ سکے، وغیرہ۔
تزکیہ کے عمل میں دو افراد شامل ہوتے ہیں — معلمِ تزکیہ، اور طالبِ تزکیہ۔ دونوں میں سے کسی کا رول بھی صد فی صد نہیں، اِس معاملے میں دونوں کا رول ففٹی ففٹی ہے۔ معلمِ تزکیہ کا رول یہ ہے کہ وہ تزکیہ کو حقیقی طورپر جانتا ہو، اس نے قرآن اور حدیث کے گہرے مطالعے کے ذریعے تزکیہ کو درست طورپر سمجھا ہو اور پھر وہ اس کو اس کے خالص انداز میں بیان کرسکے۔
اِس معاملے میں دوسرا نصف رول طالبِ تزکیہ کا ہے۔ تزکیہ کے طالب کے اندر یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ بھر پور طور پر قبولیت کی استعداد رکھتا ہو۔ وہ اپنے مانوس ذہن سے باہر آکر تزکیہ کے کلام کو سنے اور اس کو سمجھے۔ وہ پیشگی طور پر قائم کردہ معیار سے آزاد ہو، وہ یہ صلاحیت رکھتا ہو کہ وہ کلام کی نسبت سے اپنی رائے قائم کرے، نہ کہ متکلم کی نسبت سے۔ جس آدمی کے اندر یہ صفات موجود ہوں، وہی وہ شخص ہے جو تزکیہ کے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔