تزکیہ اسلام میں
قرآن میں پیغمبر کے چار کام بتائے گئے ہیں، اُن میں سے ایک کام تزکیہ نفس ہے (2: 129)۔ اس سے تزکیہ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ نفس کو اپنی زندگی میں خصوصی حیثیت دیں۔ اِسی طرح داعی اور مصلح کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جدوجہد میں تزکیہ کے عمل کو خصوصی اہمیت کے ساتھ شامل کرے۔
تزکیہ کے معنی تطہیر (purification) کے ہیں، یعنی پاک کرنا، نفس کی ترغیبات اور شیطان کے وساوس سے اپنے آپ کو بچانا، لوگوں کی طرف سے پیش آنے والے ناخوش گوار تجربات کے موقع پر اپنے آپ کو منفی رد عمل سے محفوظ رکھنا، اُن محرکات سے غیر متاثر رہ کر زندگی گزارنا جو آدمی کو صراطِ مستقیم سے ہٹانے والے ہیں، وغیرہ۔
اصل یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے، مگر دنیا کی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ مختلف خارجی اسباب کے تحت اِس صحیح فطرت پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے خارجی اثرات کو پہچانے اور اپنے آپ کو مسلسل طورپر اُس سے بچاتا رہے۔
پیغمبر کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اِس تزکیہ کے اصول سے باخبر کرے، وہ اِس اعتبار سے مسلسل طورپر لوگوں کی رہنمائی کرے۔ اِسی کے ساتھ وہ اِس پہلو سے لوگوں کے لیے ایک عملی نمونہ بن جائے۔
پیغمبر نے تزکیہ کے اِس کام کو اپنے معاصرین کے درمیان براہِ راست طورپر انجام دیا۔ بعد کی نسلوں کے لیے پیغمبر کا یہ کام بالواسطہ انداز میں جاری ہے۔ پیغمبر کے قول وعمل کا مکمل ریکارڈ حدیث اور سیرت کی کتابوں نیز آثارِ صحابہ میں موجود ہے۔ بعد کے لوگوں کا کام یہ ہے کہ وہ اِس تحریری ریکارڈ کو پڑھ کر اُس سے رہنمائی حاصل کریں۔ جو لوگ خود مطالعہ کرسکتے ہیں، وہ براہِ راست طورپر اس کا مطالعہ کریں اور جو لوگ خود مطالعہ نہیں کرسکتے، اُن کو مصلحین ِ امت نصیحت اور تلقین کے ذریعے تزکیہ کے اِس کورس کو اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی ترغیب دیتے رہیں۔