تزکیہ اور ترکِ دنیا
بعد کے زمانہ میں کچھ لوگوں نے تزکیہ کے لیے ترکِ دنیا کا طریقہ اختیار کیا۔ لیکن تزکیہ کے لیے نفسیاتی معنوں میں دنیا سے بے رغبتی مطلوب ہے، نہ کہ عملی معنوں میں دنیا کو چھوڑ دینا۔ دنیا کو چھوڑنے کا نظریہ دراصل غیر داعیانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ دنیا میں لازمی طورپر انسان بھی شامل ہیں۔ اِس لیے دنیا کو چھوڑنے کا مطلب انسان کو چھوڑنا بھی بن جاتا ہے۔
داعی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بھی عذر کی بنا پر انسان کو چھوڑ دے۔دوسرے لوگ انسان کو کسی اور نظر سے دیکھ سکتے ہیں، لیکن داعی انسان کو مدعو کی نظر سے دیکھتا ہے۔ داعی کی نظر میں ہر انسان مدعو ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ عام ہو یا خاص، خواہ وہ حاکم ہو یا غیر حاکم، حتی کہ بظاہر وہ مخالف اور ظالم کیوں نہ ہو، داعی کی نظر میں ہر ایک صرف انسان ہے۔ داعی کی اولین خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر انسان تک سچائی کا پیغام پہنچائے۔
داعی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ یہ کہے کہ فلاں شخص ایک دروازے سے آئے گا تو میں دوسرے دروازے سے نکل جاؤںگا۔ وہ یہ کہے گا کہ آنے والا شخص میرے لیے مدعو ہے، اس لیے میں آگے بڑھ کر اس سے ملوں گا اور حکمت کے ساتھ سچائی کا پیغام اس کو پہنچاؤںگا۔
ترکِ دنیا عملاً ترکِ مدعو ہے۔ ترکِ دنیا عملاً ان لوگوں سے دور جانا ہے جو ایک داعی کے لیے مطلوب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک تاجر ہر چیز کو چھوڑ سکتا ہے، لیکن وہ اپنے گاہک(customer) کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اِس طرح ایک داعی ہر دوسری چیز کو برداشت کرسکتا ہے، لیکن وہ اس کو برداشت نہیں کرسکتا کہ وہ مدعو کو چھوڑ کر کسی الگ تھلگ مقام پر چلا جائے۔ مدعو کے درمیان رہتے ہوئے اگر اس کو کوئی مصیبت پیش آتی ہے، اگر اس کے دامن پر کیچڑ کے دھبے لگ جاتے ہیں، تب بھی وہ کیچڑ کو نظر انداز کرے گا، لیکن وہ مدعو سے بے تعلقی کو برداشت نہیں کرسکتا۔
ایک مومن کا مطلوب جس طرح تزکیہ ہے، اسی طرح اس کا مطلوب دعوت بھی ہے، اور ایک سچے مومن کے لیے ممکن نہیں کہ وہ تزکیہ کو چھوڑ دے یا وہ دعوت سے دست بردار ہوجائے۔