تزکیہ کی اصل محاسبہ
حضرت عمر فاروق کا ایک قول ہے: حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا (مسند الفاروق 2/618) یعنی اپنا محاسبہ کرلو، اِس سے پہلے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے۔ یہی محاسبہ تزکیہ کی اصل ہے۔ تزکیہ کسی تربیتی کیمپ کے ذریعے نہیں ہوتا۔ تزکیہ درس وتدریس کے ذریعے نہیں ہوتا۔ تزکیہ کسی قسم کے اعمال واشغال کے ذریعے بھی نہیں ہوتا۔ تزکیہ کا واحد ذریعہ محاسبہ ہے، یعنی اپنا احتساب (introspection) کرنا، خود اپنا نگراں بن جانا، اپنے بارے میں سوچ سوچ کر خود اپنی اصلاح کرنا۔
انسان واحد مخلوق ہے جو سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسان کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ انسان تصوراتی فکر (conceptual thought) رکھنے والا حیوان ہے۔ آپ ایک لکڑی کو گڑھ سکتے ہیں، آپ لوہے کو مولڈ کرسکتے ہیں، لیکن انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا مالک آپ ہے۔ وہ اپنی تشکیل آپ کرتا ہے۔ انسان اگر خود نہ چاہیے تو کوئی دوسرا شخص اس کی شخصیت سازی نہیں کرسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ انسان کے تزکیہ یا اس کی شخصیت سازی میں تمام تر دخل ذاتی محاسبہ کا ہے۔ مربی یا مزکّی کا کام صرف یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر ذاتی محاسبہ کا طاقت ور محرک(incentive) کردے، وہ انسان کے اندر یہ طرزِ فکر پیدا کردے کہ اگر میں نے اپنا تزکیہ نہ کیا تو میں ہلاک ہوجاؤں گا، اگر میں نے اپنی اصلاح نہ کی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ میں ہمیشہ کے لیے برباد ہو کررہ جاؤں گا۔ مجھے اپنا تزکیہ خود کرنا ہے اور مجھے جو کچھ کرنا ہے وہ آج کرنا ہے، کیوں کہ کل کبھی آنے والا نہیں۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ اپنی ہر غلطی کی توجیہہ (justification)تلاش کرلیتا ہے، اس کو ہمیشہ اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کے لیے کچھ الفاظ مل جاتے ہیں۔ تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے اِس مزاج کو مکمل طورپر ختم کردیا جائے۔ مگر اِس مزاج کا خاتمہ انسان کے خود اپنے اختیار میں ہے، وہ کسی بھی دوسرے شخص کے اختیار میں نہیں۔