تزکیہ کا طریقہ
کچھ لوگوں نے تزکیہ کے مختلف طریقے بیان کرنے کی کوشش کی۔اِس ذیل میں انھوں نے تزکیہ کے طریقوں کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ کے طریقوں کی کوئی فہرست نہیں۔ آپ خواہ کتنی ہی لمبی فہرست بنالیں، مگر کوئی بھی فہرست تزکیہ کے طریقوں کی جامع نہیں بن سکتی، کوئی بھی فہرست تزکیہ کے طریقوں کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ طویل ترین فہرست کے بعد بھی کچھ ایسے اجزا باقی رہیں گے جو تجربہ کے بعد یہ ثابت کریں گے کہ یہ فہرست ایک ناقص فہرست تھی۔
اصل یہ ہے کہ تزکیہ کا تعلق کسی فہرست سے نہیں ہے، بلکہ انسان کے اپنے ارادے سے ہے۔ اگر انسان فی الواقع تزکیہ کے معاملے میں سنجیدہ ہو اور وہ دیانت دارانہ طورپر اپنا تزکیہ کرنا چاہتا ہو تو وہ ضرور اپنا تزکیہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا، لیکن اگر آدمی اِس معاملے میں پوری طرح سنجیدہ نہ ہو اور وہ اپنا تزکیہ کرنے کے لیے حریص نہ ہو تو کوئی بھی تحریر یا تقریر اس کا تزکیہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔
انسان کی ایک انوکھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی ہر غلطی کی توجیہہ (justification) تلاش کرلیتا ہے۔ وہ اپنی ہر غلطی کو درست ظاہر کرنے کے لیے خوب صورت الفاظ پالیتا ہے۔ ایسی حالت میں کوئی بھی مصلح یا مربی اس کا تزکیہ نہیں کرسکتا۔ تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خوداپنے بارے میں ایک باشعور فیصلہ کرے۔ اس کا یہ فیصلہ اتنا زیادہ محکم ہو کہ وہ ہر حال میں اس پر قائم رہے،اِس معاملے میں کسی بھی عذر (excuse) کو وہ اپنے لیے عذر نہ بنائے۔
تزکیہ کے معاملے میں اصل چیز تزکیہ کا ارادہ ہے۔ یہ ارادہ اتنازیادہ قوی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی چیز آدمی کواس سے ہٹا نہ سکے۔ کوئی بھی اندیشہ اس کے ارادے کو کمزور نہ کرسکے۔ اِس معاملے میں وہ کسی بھی دباؤ کو قبول کرنے پر راضی نہ ہو۔ اس کا یہ قول ہو کہ — مجھے لازمی طورپر اپناتزکیہ کرنا ہے، خواہ مجھے اس کی کوئی بھی عملی یا نفسیاتی قیمت دینا پڑے۔