محاسبہ کیسے
تزکیہ کا اصل ذریعہ ذاتی محاسبہ (self introspection) ہے، یعنی اپنے بارے میں سوچنا، اپنے قول وعمل کا تجزیہ (analysis) کرنا، دوسرے لفظوں میں، محاسبہ یہ ہے کہ آدمی اپنا جج آپ بن جائے، وہ اپنے خلاف سوچے اور اپنے بارے میں انتہائی بے لاگ انداز میں رائے قائم کرے۔ اِسی کا نام احتساب یا محاسبہ ہے، اور اِس قسم کے محاسبہ کے بغیر کسی کا تزکیہ نہیں ہوسکتا۔
انسان کے اندر سب سے زیادہ طاقت ور جذبہ انا (ego) کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ اتنا زیادہ شدید ہے کہ ہر آدمی شعوری یا غیر شعوری طور پر أنا ولا غیری (میں، میرے سوا کوئی نہیں) کی نفسیات میں جیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر بہت جلد خود فکری (self-thinking) کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے، یعنی خود پسندی کی نفسیات۔ اِس قسم کی نفسیات تزکیہ کی قاتل ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی کے اندر اینٹی سیلف سوچ (anti-self thinking)پیدا ہو۔وہ اپنے خلاف سوچے اور اپنے خلاف سن سکے۔ عمر بن الخطاب کے اندر یہ جذبہ اتنا زیادہ شدید تھاکہ انھوں نے کہا — خدا اُس انسان پر رحم کرے جو مجھے میرے عیب کا تحفہ بھیجے (رحم اللہ امرء اً أہدیٰ إليّ عیوبي)
محاسبہ کا یہ مزاج ایک دریافت سے پیدا ہوتا ہے، اور وہ ہے اپنے عجز (helplessness) کی دریافت۔ تزکیہ کے طالب کو چاہیے کہ وہ دریافت کے درجے میں اِس حقیقت کو جانے کہ اس کا احساسِ میں (sense of I) صرف احساس کی حد تک محدود ہے۔ اپنے احساس کے باہر کسی بھی چیز پر اس کو کوئی اختیار نہیں — اپنے وجود کو باقی رکھنے پر اس کو کوئی اختیار نہیں، موت کے معاملے میں اس کو کوئی اختیار نہیں، لائف سپورٹ سسٹم (life support system) پر اس کو کوئی اختیار نہیں، آخرت کی عدالت میں اس کو کوئی اختیار نہیں، وغیرہ۔
جب کوئی آدمی اپنی اِس کامل بے اختیاری کو دریافت کرتا ہے تو اس کے اندر لازمی طورپر عجز کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور یہی عجز کا احساس آدمی کو اپنا محاسبہ آپ کرنے پر مجبور کردیتا ہے— اِسی دریافت میں تزکیہ کا اصل راز چھپا ہوا ہے۔