تزکیہ اور قربانی
تزکیہ کا حصول کوئی سادہ بات نہیں۔ تزکیہ کے حصول کے لیے ہمیشہ ایک قربانی درکار ہوتی ہے، جسمانی قربانی نہیں، بلکہ نفسیاتی قربانی۔وہ قربانی ہے — تزکیہ کے حصول کی خاطر خلافِ تزکیہ باتوں کومکمل طور پر چھوڑ دینا۔ یہ فطرت کا ایک اصول ہے کہ ایک چیز کو پانے کے لیے دوسری چیز کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ اصول تزکیہ کے معاملے میں بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ دوسرے معاملات میں۔
اِنھیں میں سے ایک چیز ہے غلط عادتوں (bad habits)کو چھوڑنا۔ ہرعورت اور مرد اپنے ماحول کے اثر سے ایسی چیز کے عادی ہوجاتے ہیںجو تزکیہ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تزکیہ کے طالب کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی عادتوں کو مکمل طورپر چھوڑ دے۔
مثلاً زیادہ بولنا اور کم سوچنا، خاندانی تقاضوں میں مشغول رہنا، کھانے اور کپڑے کا شوقین ہونا، تفریحی مجلسوں میں بیٹھنا، دوسروں کی کمیوں کا چرچا کرنا، شاپنگ اور آؤٹنگ، کفایت شعاری کے بجائے فضول خرچی، سطحی اور نمائشی ذوق، تنقید کو برا ماننا اور تعریف پر خوش ہونا، دنیوی چیزوں کا حریص ہونا، ضرورت پر قناعت نہ کرنا، سادگی (simplicity)کے بجائے تکلف کو پسند کرنا، وغیرہ۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور تزکیہ کو پانے کی بھی ایک قیمت ہے، اور وہ قیمت ہے— خلافِ تزکیہ باتوں کو چھوڑنا۔ جو آدمی تزکیہ کی باتیں کرے، لیکن وہ خلافِ تزکیہ باتوں کو چھوڑنے پر راضی نہ ہو، ایسا آدمی بلاشبہہ ایک غیر سنجیدہ انسان ہے، اور غیرسنجیدہ مزاج کے ساتھ کبھی تزکیہ جمع نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی تزکیہ کی طلب میں سنجیدہ ہو، وہ خود ہی یہ جان لے گا کہ کیا چیزیں تزکیہ کے موافق ہیں اور کیا چیزیں تزکیہ کے خلاف۔ اس کی سنجیدگی لازمی طورپر اس کو مجبور کرے گی کہ وہ موافقِ تزکیہ باتوں کو اپنائے اور خلافِ تزکیہ باتوں کو مکمل طور پر چھوڑدے۔ سنجیدگی اس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی ضرور تزکیہ کے درجے تک پہنچ جائے، وہ ہرگز تزکیہ سے محروم نہ رہے۔