عزتِ نفس
عزت نفس اور کبر نفس میں اتنا کم فرق ہے کہ یہ طے کرنا تقریباً نا ممکن ہے کہ کہاں عزت نفس کی حد ختم ہوتی ہے اور کہاں سے کبر نفس کی حد شروع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں عزت نفس کو کوئی درجہ نہیں دیا گیا ہے۔
اکثر حالات میں عزت نفس دراصل کبر نفس ہی کا دوسرا نام ہوتا ہے۔ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ عزت نفس سرے سے کوئی پسندیدہ چیز نہیں۔ عزت نفس کی حقیقت اکثر حالات میں اس کے سو ا کچھ نہیں کہ وہ کبر نفس ہی کا ایک خوب صورت نام ہوتا ہے۔
اسلام میں اصل قابل قدر چیز عزت نفس نہیں بلکہ کسر نفس ہے۔ اسلام میں اعلیٰ اخلاقیات کا معیار تواضع ہے۔ دلیل کے آگے جھک جانا، اپنی غلطی کو مان لینا۔ اکڑسے مکمل طور پر خالی ہونا، یہ مومن کی صفات ہیں، اور ان صفات کے ساتھ عزت نفس کا کوئی جوڑ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عزت نفس کا مزاج آدمی کے لیے تواضع، اعتراف اور علم میں رکاوٹ بن جاتا ہے، جبکہ اسلام کی اعلیٰ اخلاقی قدر یہی ہے۔
جب دو آدمیوں یا دو گروپ میں نزاع ہو تو نزاع بہت جلد بڑھ کر وقار کا سوال بن جاتی ہے۔ اور جب کسی مسئلہ میں وقار کی صورت پیدا ہو جائے تو اپنے موقف سے ہٹنا آدمی کو بے عزتی معلوم ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ اپنے عزت ووقار کو بچانے کے نام پر وہ اپنے موقف پر اکڑ جاتا ہے۔ اسی اکڑ یا ضد کا خوب صورت نام عزت نفس ہے۔
صحیح اسلامی طریقہ یہ ہے کہ نزاع کو کسی بھی حال میں وقار کا سوال نہ بنایا جائے۔ بلکہ صلح جوئی کے ذہن کے تحت اس کو رفع کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح کے معاملات میں جھکنا ہی اسلام کا مطلوب ہے نہ کہ ضد میں پڑ کر اپنے موقف پر اکڑ جانا اور یہ کہہ کر اپنے کو فریب میں مبتلا کر نا کہ میں اپنی عزت نفس کو بچانے کے لیے ایسا کر رہا ہوں۔
ضد ایک نفسیاتی برائی ہے، جبکہ تواضع اور فروتنی ایک عظیم عبادت ہے۔ خدا ضد اور اکڑ کو نا پسند کرتا ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں تواضع اور فروتنی کو پسند کرتا ہے اور جو لوگ حقیقی معنوں میں تواضع اور فروتنی کا ثبوت دیں ان کے درجات کو دنیا اور آخرت میں بلند کرتا ہے۔