کھونا، پانا
دنیا میں آدمی کبھی کھوتا ہے اور کبھی پاتا ہے۔ یہ دونوں تجربے ایسے ہیں جو ہرآدمی کو اور ہمیشہ پیش آتے ہیں۔ کوئی بھی اس سے بچا ہوا نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان تجربات کو آدمی کو کس طرح لینا چاہیے۔ اسلام بتاتا ہے کہ دونوں ہی تجربے آزمائش کے تجربے ہیں۔ یہاں پانا بذاتِ خود کامیابی نہیں۔ اسی طرح کھونے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی آخری طور پر ناکام ہو گیا۔
کھونے یا پانے کے معاملہ میں اصل اہمیت خود کھونے یا پانے کی نہیں ہے۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی پر جب یہ تجربات گزرے تو اس کے بعدا س نے کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔
جب آدمی پر کھونے کا تجربہ گزرے تو اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنے کو محروم اور ناکام سمجھ کر حوصلہ کھو بیٹھے یا فریادو شکایت میں مشغول ہو جائے۔ اس کے بجائے آدمی کو چاہیے کہ وہ حوصلہ مندی کا ثبوت دے۔ وہ اس کو برداشت کرتے ہوئے اپنے ذہنی اعتدال کو برقرار رکھے۔ وہ یہ سوچے کہ دینے والا بھی خدا ہے اور لینے والا بھی خدا۔ اس لیے مجھے خدا کے فیصلہ پر راضی رہنا ہے۔ خدا کے فیصلہ پر راضی رہ کر ہی میں دوبارہ اس کی رحمت اور توجہ کا مستحق ہو سکتا ہوں۔
اسی طرح جب آدمی کو پانے کا تجربہ ہو تو اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ فخرو ناز کی نفسیات میں مبتلا ہو جائے۔ وہ اپنے آپ کو اونچا سمجھنے لگے۔
اس کے بر عکس،اس کو ایسا کرنا چاہیے کہ کامیابی اس کی تواضع میں اضافہ کرے۔ خدا اور انسانیت کی نسبت سے اسی کے اوپر جو فرائض آتے ہیں ان کو وہ اور زیادہ اہتمام کے ساتھ ادا کرنے لگے۔
اس دنیا میں کھونا بھی امتحان ہے اور پانا بھی امتحان۔ نہ کھونے والا ناکام ہے اور نہ پانے والا کامیاب۔ کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار یہ ہے کہ ان تجربات کے بعد آدمی کیسا ثابت ہوتا ہے۔
کامیاب وہ ہے جو کھونے اور پانے کے تجربات کے باوجود اعتدال پر رہے۔ دونوں میں سے کوئی تجربہ اس کو اعتدال کی راہ سے ہٹانے والا ثابت نہ ہو۔ ایسے ہی لوگ خدا کی نظر میں کامیاب لوگ ہیں۔ کوئی بھی چیز ان کی کامیابی میں خلل ڈالنے والی نہیں۔