مال
مال زندگی کی ضرورت ہے، مال زندگی کا مقصد نہیں، مال کو اگر اس لیے حاصل کیا جائے کہ اس سے زندگی کی ضروری حاجتیں پوری ہوں تو مال انسان کے لیے بہترین مدد گار ہے۔ لیکن مال کو اگر زندگی کا مقصد بنا لیا جائے اور بس زیادہ سے زیادہ مال کمانے ہی کو آدمی اپنا سب سے بڑا کام سمجھ لے تو ایسا مال ایک مصیبت ہے، وہ آدمی کو دنیا میں بھی تباہ کرے گا اور آخرت میں بھی۔
انسان کو دنیا میں ایک مدت تک جینا ہے۔ اس لیے ا س کو کچھ مادی سامان درکار ہیں جو اس کے لیے جینے کا سہارا بن سکیں۔ یہ سامان مال کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے کمائی کر کے مال حاصل کرنا ہر آدمی کے لیے ضروری ہے۔ اس اعتبار سے مال ہر انسان کے لیے ایک قیمتی مدد گار کی حیثیت رکھتا ہے۔
مگر انسانی زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کو علم حاصل کرنا ہے۔ اس کو روحانی ترقی کے لیے کوشش کرنا ہے۔ اس کو انسانیت کی تعمیرو ترقی میں اپنا مثبت حصہ ادا کرنا ہے۔ اس کو اپنے آپ کو اس طرح بنانا ہے کہ اپنے سماج میں وہ اس کا ایک مفید جزء بن کر رہ سکے۔
یہی وہ چیز ہے جس کو مقصد زندگی کہا جاتا ہے۔ اس مقصد کا حصول صرف اس وقت ممکن ہے جبکہ آدمی اپنی طاقت کا ایک حصہ اس میں لگائے۔ مال کمانے کی سرگرمیوں کو ایک حد میں رکھ کر وہ ان کاموں کے لیے اپنے وقت کو فارغ کرے۔
مال انسان کی جسمانی یا مادی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ مگر مال اس کی روحانی اور فکری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کافی نہیں۔ جو آدمی مال ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لے اس کا جسم تو مسلسل غذا پاتا رہے گا، مگر اس کی روح فاقہ کر رہی ہو گی، اس کی ذہنی ہستی اپنی خوراک سے محروم ہو کر ایسی ہو جائے گی جیسے کہ اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔
اسی لیے مال کو فتنہ کہا گیا ہے۔ یعنی وہ انسان کے لیے آزمائش ہے مال کا صحیح استعمال انسان کو ہر قسم کی ترقیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اور مال کا غلط استعمال انسان کو تباہی کے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔