تعصب نہیں
رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے لوگ اسلام کے مخالف ہو گئے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے لگے۔ قرآن میں کئی جگہ اس واقعہ کا ذکر آیا ہے مگر قرآن میں اس کے مقابلہ میں جو تدبیر بتائی گئی وہ یہ نہیں تھی کہ تم ان کی سازشوں کو بے نقاب کرو۔ ان کے خلاف جوابی تحریک چلائو۔ ان کی سازش اور عداوت کو ختم کرنے کے لیے ان سے لڑائی کرو۔ اس کے بر عکس قرآن میں رسول ؐ اور اصحاب رسول ؐ کو صرف ایک ہدایت دی گئی اور وہ توکل علی اللہ تھی۔ یعنی سازشوں اور دشمنیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرفاللہ پر بھروسہ کرو۔ اس قسم کی باتوں سے بے نیاز ہو کر اپنی مثبت سر گرمیوں کو جاری رکھو۔
یہ ایک بے حد اہم ہدایت تھی۔ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ذہن کو منفی سوچ سے ہٹا کر مثبت سوچ کی طرف ڈال دیا۔ ایک لفظ میں اس قرآنی تعلیم کا مطلب یہ تھا کہ: دوسروں میں جینے کے بجائے اپنے آپ میں جیو۔
اگر آپ کے ذہن میں یہ بات بھر جائے کہ دوسرے لوگ آپ کے خلاف سازش کر رہے ہیں تمام لوگ آپ کے دشمن ہو گئے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ ہر ایک پر شبہ کرنے لگیں گے۔ حتی کہ خود اپنے فرقہ کا کوئی فرد اگر کوئی رواداری کی بات کرے گا تو آپ اس کو الٹے مفہوم میں لے کر یہ سمجھیں گے کہ یہ دشمنوں کا ایجنٹ ہے۔ اور اس طرح آپ خود اپنے لوگوں کو اپنے سے دور کر کے اپنے آپ کو کمزور کر لیں گے۔
سازش یا عداوتی ذہن کا ایک نقصان یہ ہے کہ ایسے لوگ موضوعی طرز فکر (آبجکٹیو تھنکنگ) کو کھو دیتے ہیں۔ ان کی ساری سوچ جانبدارانہ اور متعصبانہ بن جاتی ہے۔ وہ حقیقتوں کو ویسا ہی دیکھ نہیں پاتے جیسا کہ وہ ہیں۔ ان کی مثال اس انسان کی ہو جاتی ہے جو اپنی آنکھ میں کسی خرابی کی بنا پر باغ کے صرف کانٹوں کو دیکھ سکے۔ ایسا انسان گویا ایک پھول بلائنڈ انسان ہے۔ اس کوسارا باغ صرف کانٹوں سے بھرا ہوا دکھائی دے گا۔ عین اسی وقت باغ میں ہزاروں خوب صورت پھول کھلے ہوئے موجود ہوں گے مگر وہ ان کو دیکھنے سے محروم رہے گا۔