امتحان
موجودہ دنیا میں انسان آزاد ہے۔ خدا نے اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی ہے۔ مگر یہ آزادی امتحان کے لیے ہے نہ کہ بے قید زندگی کے لیے۔ اس آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی جانور کی طرح بے قید زندگی گزارے اور پھر ایک دن مر جائے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آدمی خود اپنے ارادہ کے تحت صحیح زندگی گزارے۔ وہ خود اپنے فیصلہ کے تحت اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا پابند بنا لے۔
انسان کو اس انداز پر پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو تمام مخلوقات میں سب سے اشرف مخلوق ہونے کا کریڈٹ دیا جائے۔ اس کا شمار خدا کے ان خصوصی بندوں میں ہو جنھوں نے کسی ظاہری پابندی کے بغیر اپنے آپ کو با اصول انسان بنا یا۔ جنھوں نے کسی خارجی جبر کے بغیر خود اپنے آزادانہ فیصلہ کے تحت وہ کیا جو انھیں حقیقت کی رو سے کرنا چاہیے تھا۔
اس دنیا میں جتنی چیزیں ہیں سب کی سب خدا کی محکوم ہیں۔ خلا کے ستارے اور سیارے کا مل طور پر خدا کے حکم کے تحت گردش کرتے ہیں۔ درخت،دریا، پہاڑ اور اس قسم کی دوسری تمام چیزیں پیشگی طور پر خدا کے مقرر کیے ہوئے نقشہ پر قائم ہیں۔ اسی طرح عام حیوانات بھی وہی کرتے ہیں جو ان کی پیدائشی جبلت کے تحت ان کے لیے مقرر کر دیا گیا تھا۔ دنیا میں استثنائی طور پر صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جس کو اختیار اور آزادی کی نعمت عطا کی گئی ہے۔
اسی آزادی نے انسان کے اوپر دو مختلف قسم کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اگر وہ آزادی پا کر گھمنڈ اور سر کشی اور بے قیدی میں مبتلا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ آزمائش میں پورا نہیں اترا۔ اس کے بعد اس کے لیے وہی انجام مقدر ہے جو ان لوگوں کا ہوتا ہے جو کسی نازک آزمائش میں ناکام ہو گئے ہوں۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو اپنی ملی ہوئی آزادی کو صحیح دائرہ میں استعمال کریں۔ وہ مجبور نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو خدائی اصولوں کا پابند بنا لیں۔ یہ لوگ آزادی کی آزمائش میں کامیاب ہو گئے، ان کو خدا کی طرف سے وہ انعامات دیے جائیں گے جو کسی دوسری مخلوق کو نہ ملے ہوں۔ وہ خدا کے مقرب بندے قرار پائیں گے جو ابدی طو ر پر راحت اور آرام میں رہیں گے۔ ان کو وہ خوشیاں ملیں گی جو کبھی ختم نہ ہوں۔