عبرت پذیری

مومن کا مزاج عبرت پذیری کا مزاج ہوتا ہے۔ اس کو قرآن میں  تو سم کہا گیا ہے یعنی واقعات سے نصیحت لینا۔ گردو پیش کی چیزوں  سے سبق حاصل کرنا۔

ایمان عین اپنی فطرت کے نتیجہ میں  آدمی کو حساس بنا دیتا ہے۔ وہ ہر معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ اس کا مزاج یہ بن جاتا ہے کہ وہ چیزوں  کی سطحی پہلو سے گزر کر ان کی گہرائیوں  میں  اترے۔ جن چیزوں  کو دیکھ کر لوگ سرسری طور پر گزر جاتے ہیں  ان میں  وہ حکمت کا خزانہ دریافت کر لیتا ہے۔ وہ بصارت سے گزر کر بصیرت کی نعمتوں  کو پا لیتا ہے۔

یہ ایک عظیم مومنانہ صفت ہے جو آدمی کی شخصیت کو بے پناہ بنا دیتی ہے۔ وہ ہر آن نئی نئی چیزیں  دریافت کرتا ہے۔ پھیلی ہوئی کائنات اس کی روح کے لیے رزق کا ایک عظیم دستر خوان بن جاتی ہے۔

سورج کی روشنی میں  اس کو معرفت کا نور دکھائی دیتا ہے۔ ہوا کے جھونکوں  میں  وہ لمس ربانی کے تجربے کرنے لگتا ہے۔ سر سبز درخت اور رنگین پھول اس کو عالمِ معنویت کی جھلکیاں  دکھائی دینے لگتے ہیں۔ وہ ہر بہار میں  ایک اور وسیع تر بہا ر اور ہر خزاں  میں  ایک اور با معنی خزاں  کا منظر دیکھنے لگتا ہے۔

اسی طرح تمام انسانی اور غیر انسانی واقعات اس کے لیے نصیحت کا خزانہ بن جاتے ہیں۔ وہ دوسروں  کے علم سے اپنے علم میں  اضافہ کرتا ہے۔ دوسروں  کی غلطیاں  اس کے لیے اپنی اصلاح کا سبب بن جاتی ہیں۔ چیونٹی سے لے کر اونٹ تک اور دریا سے لے کر پہاڑ تک ہر چیز میں  وہ ایسے پہلو تلاش کر لیتا ہے جو اس کی بصیرت میں  اضافہ کریں۔ جو اس کو نئے تجربات سے آشنا کر کے آخری حد تک بے پناہ بنا دیں۔

جس طرح مادی خوراک جسم کی صحت کے لیے ضروری ہے اسی طرح عبرت اور نصیحت انسان کی روحانی خوراک ہیں۔ مادی خوراک اگر جسمانی صحت کی ضمانت ہے تو نصیحت پذیری روحانی کی ضمانت۔ 

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom