آخرت
انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ تاہم اس کی عمر کو خدا نے دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس کی عمر کا بہت چھوٹا سا حصہ موجودہ دنیا میں رکھ دیا ہے، اور اس کا بقیہ تمام حصہ موت کے بعد آنے والی آخرت میں۔ موجودہ دنیا عمل کی جگہ ہے، اور آخرت کی دنیا عمل کا انجام پانے کی جگہ۔
موجودہ دنیا ناقص ہے اور آخرت کی دنیا ہر اعتبار سے کامل۔ آخرت ایک لا محدود دنیا ہے۔ وہاں تمام چیزیں اپنی معیار ی حالت میں مہیا کی گئی ہیں۔
خدا نے اپنی جنت کو اسی آخرت کی دنیا میں رکھا ہے۔ جنت ہر قسم کی نعمتوں سے بھری ہوئی ہے۔ موجودہ دنیا میں جو لوگ نیکی اور خدا پرستی کا ثبوت دیں گے وہ آخرت کی دنیا میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے لیے جنت کے دروازے ابدی طور پر کھول دیے جائیں گے۔
لیکن جو لوگ موجودہ دنیامیں خدا کو بھول جائیں یا خدا کے مقابلہ میں سر کشی کا طریقہ اختیار کریں وہ خدا کے نزدیک مجرم ہیں۔ ایسے تمام لوگ آخرت کی نعمتوں سے محروم رہیں گے۔
موجودہ دنیا میں خدا غیب کی حالت میں ہے۔ آخرت کی دنیا میں وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ سامنے آجائے گا۔ اس وقت تمام انسان خدا کے سامنے جھک جائیں گے۔ مگر اس وقت کا جھکنا کسی کے کام نہیں آئے گا۔ خدا کے سامنے وہ جھکنا مطلوب ہے جو دیکھنے سے پہلے موجودہ دنیا میں ہو۔ آخرت میں خدا کو دیکھ لینے کے بعد جھکنا کسی کو کچھ فائدہ دینے والا نہیں۔
موت آدمی کی زندگی کا خاتمہ نہیں وہ اگلے یا دوسرے مرحلہ حیات کا آغاز ہے۔ موت وہ درمیانی مرحلہ ہے جبکہ آدمی آج کی وقتی دنیا سے نکل کر کل کی مستقل دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ وہ دنیا کے مسافر خانہ سے نکل کر آخرت کی ابدی قیام گاہ میں داخل ہو جاتا ہے آخرت کا یہ مرحلہ ہر ایک کی زندگی میں لازماً پیش آنے والا ہے۔ کوئی بھی نہیں جو اپنے آپ کو آخرت کی پیش سے بچا سکے۔