وعدہ
اجتماعی زندگی میں باہمی معاملات کرتے ہوئے بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص سے کوئی وعدہ کرتا ہے۔ ایسا وعدہ بظاہر دو انسانوں یاد و گروہوں کے درمیان ہوتا ہے۔ مگر اس میں تیسرا فریق خدا ہوتا ہے جو گواہ کی حیثیت سے لازمی طور پر اس میں موجود رہتا ہے۔ اس لیے ہر وعدہ ایک خدائی وعدہ بن جاتا ہے۔
اسی لیے مومن وعدہ کے بارے میں نہایت حساس ہوتا ہے۔ اس کا یہ یقین کہ ہر وعدہ جو دو آدمیوں کے درمیان کیا جائے وہ خدا کی نگرانی میں ہوتا ہے اور خدا کے یہاں اس کا حساب ہو گا۔ یہ یقین اس کو مجبورکرتا ہے کہ وہ وعدہ کے بارے میں حد درجہ ذمہ دار ہو۔ جب وہ کسی سے ایک وعدہ کر لے تو لازماً وہ اس کو پورا کرے۔
جس سماج میں لوگ اس صفت کے حامل ہوں کہ وہ وعدہ ضرور پورا کریں۔ اس سماج کا ہر فرد قابل پیشین گوئی کردار کا حامل بن جاتا ہے۔ ایسے سماج میں وہ خاص صفت آجاتی ہے جو بقیہ کائنات میں وسیع پیمانہ پر موجود ہے۔ اس کائنات کا ہر جزء حد درجہ صحت کے ساتھ اپنا عمل کر رہا ہے۔ مثلاً سیاروں اور ستاروں کی گردش کے بارے میں پیشگی طور پر جانا جا سکتا ہے کہ وہ اگلے سوسال بعد یا ہزار سال بعد کہاں ہو ں گے۔ اسی طرح پانی کے بارے میں پیشگی طور پر یہ معلوم ہے کہ وہ کتنے درجہ کی حرارت پر ابلنے لگے گا۔ اسی طرح پوری کائنات قابل پیشین گوئی کردار کی حامل بن گئی ہے۔
جس سماج میں لوگ وعدہ پورا کرنے والے بن گئے ہوں اس سماج میں اپنے آپ بہت سی دوسری خوبیاں پرورش پانے لگتی ہیں۔ مثلاً ایسے سماج میں لین دین کے جھگڑے نہیں ہوتے۔ ایسے سماج میں ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ ایسے سماج میں ہر آدمی سکون کی حالت میں ہوتا ہے کیوں کہ اس کو یہ اندیشہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کو دوسروں کے ساتھ وعدہ خلافی کا معاملہ پیش آئے گا۔
وعدہ پورا کرنا اعلیٰ ترین اخلاقی صفت ہے۔ اور ایمان آدمی کو اسی اعلیٰ ترین اخلاقی صفت کا حامل بناتا ہے۔