خدمتِ خلق
مومن کے اندر جو اعلیٰ جذبات ہونے چاہئیں ان میں سے ایک خدمتِ خلق ہے۔ یعنی خدا کی مخلوق کے کام آنا۔ لوگوں کی ضروریات کو پوری کرنا۔ کسی صلہ کی امید نہ رکھتے ہوئے ہر ایک کی حاجتیں پوری کرنا۔
دوسروں کے کام آنا دراصل اپنے حق میں خدائی نعمت کا اعتراف کرنا ہے۔ وہی شخص دوسروں کے کام آتا ہے جس کے اندر دوسروں کے مقابلہ میں کچھ زیادہ صفات پائی جا رہی ہوں مثلاً آنکھ والے آدمی کا ایک بے آنکھ والے کے کام آنا، ایک تندرست آدمی کا کسی معذور کے کام آنا، ایک صاحب مال کا بے مال آدمی کے کام آنا۔ ایک صاحب حیثیت آدمی کا کسی بے حیثیت آدمی کے کام آنا۔
ایسے ہر موقع پر جب خدا کی دی ہوئی اپنی کسی حیثیت کی بنا پر آدمی کسی کی مدد کرتا ہے تو وہ ایسا کر کے خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے۔ وہ خاموش زبان میں کہہ رہا ہوتا ہے کہ خدایا جو کچھ میرے پاس ہے وہ تیرا ہی دیا ہوا ہے اب میں دوبارہ اس کو تیری ہی راہ میں خرچ کر رہا ہوں۔ تو ہم دونوں کے لیے اپنی مزید رحمتیں اور برکتیں لکھ دے۔
خدمتِ خلق کا کام کرکے آدمی صرف دوسرے کی مدد نہیں کرتا بلکہ خود اپنی حیثیت کو بڑھاتا ہے۔ ملی ہوئی چیز کو صرف اپنے لیے استعمال کرنا گویا کہ حیوانی سطح پر جینا ہے۔ کیوں کہ حیوان بھی یہی کرتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے صرف اس کا ہے اس میں کسی اور حیوان کا حصہ نہیں۔
مگر انسان کی سطح اس سے بلند ہے۔ انسان تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہے۔ انسان کی اعلیٰ سطح کے مطابق جورویہ ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر نہ جئے بلکہ ساری انسانیت کو اپنے اندر سمیٹ لے۔ وہ دنیا میں اس طرح زندگی گزارے کہ وہ دوسروں کا خیر خواہ بنا ہوا ہو۔ دوسروں کی خدمت کرنے کے لیے تیار رہتا ہو۔ وہ اپنے اثاثہ میں دوسروں کا حق بھی تسلیم کرے۔
خدمتِ خلق دوسرے لفظوں میں خدمتِ انسانیت ہے اور خدا کی عبادت کے بعد خدمتِ انسانیت سے بڑاکوئی اور کام نہیں۔