اخلاق
اخلاق سے مراد باہمی سلوک ہے۔ اخلاق اس برتائو کا نام ہے جو روز مرہ کی زندگی میں ایک آدمی دوسرے آدمی کے ساتھ کرتا ہے۔
اس اخلاق کا اصول کیا ہو۔ اس کا سادہ اصول یہ ہے— تم دوسروں کے لیے وہی چاہو جو تم اپنے لیے چاہتے ہو، تم دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتائو کرو جیسا برتائو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔
ہر آدمی جانتا ہے کہ وہ میٹھے بول کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں سے بولے تو میٹھے انداز میں بولے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ دوسرا اس کی راہ میں کوئی پرابلم نہ کھڑا کرے، اس لیے ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی راہ میں کوئی پرابلم کھڑا کرنے سے اپنے آپ کو بچائے۔
ہر آدمی چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا معاملہ کریں۔ اس لیے ہر آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ جب بھی اس کا سابقہ دوسروں سے پڑے وہ ان سے ہمدردی اور تعاون کا معاملہ کرنے کی کوشش کرے۔
اخلاق کا یہ معیار انتہائی سادہ اور فطری ہے۔ یہ اتنا سادہ ہے کہ ہر آدمی اس کو جان سکتا ہے خواہ عالِم ہو یا جاہل، حتی کہ ایک اندھا یا معذور آدمی بھی نہایت آسانی کے ساتھ یہ سمجھ سکتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے پسندیدہ ہے اور کیا چیز نا پسندیدہ، اس حدیث نے انسانی اخلاق کا ایسا معیار دے دیا کہ جس کو سمجھنے سے کوئی شخص بھی عاجز نہیں ہو سکتا اس طرح اسلام نے ہر آدمی کو اس کے اپنے ذاتی تجربہ کی روشنی میں یہ بتا دیا کہ وہ لوگوں سے معاملہ کرنے میں کس قسم کا سلوک کرے اور کس قسم کا سلوک نہ کرے۔
حدیث میں ہے کہ لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو(أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا) مسند احمد، حدیث نمبر18456۔
اس کے مطابق اچھا انسان بننا کوئی پر اسرار معاملہ نہیں، اس کا سادہ فارمولا یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوہرے معیار سے بچا لے۔ ایسا کرنے کے بعد وہ اپنے آپ اعلیٰ انسانی اخلاق کا مالک بن جائے گا۔