ایمان
ایمان کی حقیقت معرفت ہے یعنی خدا کی دریافت۔ ایک انسان جب خدا کے وجود کوشعوری طور پر پالے اور خدائی حقیقتوں تک اس کی رسائی ہو جائے تو اسی کا نام ایمان ہے۔
یہ دریافت کوئی سادہ بات نہیں۔ خدا تمام چیزوں کا خالق اور مالک ہے۔ وہ انعام دینے والا ہے اور سزا دینے والا بھی۔ اس کی پکڑ سے کوئی بچا ہوانہیں۔ ایسے ایک خدا کی دریافت آدمی کی پوری زندگی کو ہلا دیتی ہے۔ اس کی سوچ میں ایک انقلاب آجاتا ہے۔ اس کے تمام جذبات کا مرکز خدا بن جاتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی پوری طرح خدا کا بندہ بن جاتا ہے۔ خدا ہی اس کی تمام توجہات کا مرکز بن جاتا ہے۔ اب وہ ایک ایسا انسان ہو تا ہے جس کا جینا بھی خدا کے لیے ہو اور مرنا بھی خدا کے لیے ہو۔
اس ایمان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے آداب واخلاق سب خدا کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ وہ بولتا ہے تو یہ سمجھ کر بولتا ہے کہ خدا اس کی آواز کو سن رہا ہے۔ وہ چلتا ہے تو اس طرح چلتا ہے کہ اس کی چال خدا کی پسند کے خلاف نہ ہو۔ وہ لوگوں سے معاملہ کرتا ہے تو اس کو یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر میں نے کوئی برا معاملہ کیا تو خدا مجھے اس کی سزا دے گا۔
اس ایمان کا اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی پوری زندگی آخرت رخی بن جاتی ہے۔ وہ ہر معاملہ میں دنیا سے زیادہ آخرت کے پہلو کو اپنی نظر میں رکھتا ہے۔ وہ وقتی فائدے کے بجائے آخرت کے فائدے کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیتا ہے۔ جب بھی کسی معاملہ میں دو پہلو ہوں، ایک دنیا کا پہلو اور دوسرا آخرت کا پہلو تو ہمیشہ وہ دنیا کے پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے آخرت کے پہلو کو لے لیتا ہے۔
یہ ایمان اس کے لیے خدا پر اتھاہ اعتماد کا سر چشمہ بن جاتا ہے۔ وہ ہر حال میں خدا پر بھروسہ کرتا ہے۔ ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے خدا ئے برتر کی پہچان کا نام ہے۔ مگر جب یہ پہچان کسی کے دل ودماغ میں اترتی ہے تو وہ اس کی پوری شخصیت کو ایک نئی شخصیت بنا دیتی ہے۔ وہ ہر اعتبار سے ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔