تصور انسان
انسان خدا کا بندہ ہے۔ انسان کو خدا نے ایک منصوبہ کے تحت پیدا کیا ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں ایک عرصہ تک رکھ کر اسے جانچے۔ پھر ان میں سے جو انسان جانچ میں پورا اترے اس کو قبولیت اور انعام دیا جائے۔ اور جو لوگ اس جانچ میں پورے نہ اتریں ان کو رد کر دیا جائے۔
اس جانچ کی مصلحت کی بنا پردنیا کی زندگی میں انسان کو آزادی دی گئی ہے۔ یہاں انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اس کا حق نہیں ہے، وہ صرف اس کے امتحان کا پرچہ ہے۔ ہر صورت حال ایک امتحان ہے، اور ہر صورت حال میں انسان کو اس کے مطابق اپنا مطلوب عمل انجام دینا چاہئے۔
انسان کے لیے صحیح رویہ یہ نہیں ہے کہ اس کی خواہش اور اس کی عقل اس کو جس طرف لے جائے، وہ اس طرف چل پڑے۔ بلکہ صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے خدائی منصوبہ کو سمجھے اور اس پر یقین کرتے ہوئے اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔
انسان اپنی موجودہ آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے خدائی نقشہ سے انحراف کر سکتا ہے، مگر وہ اپنے آپ کو غلط روی کے انجام سے بچا نہیں سکتا۔
ایسی حالت میں ہر انسان کا یہ خود اپنا مفاد ہے کہ وہ اپنی زندگی کا رخ متعین کرنے میں بے حد محتاط ہو۔ اپنی مرضی کو رہ نما بنانے کے بجائے وہ خدا کی مرضی کو اپنا رہ نما بنائے۔ اپنی خواہشوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے وہ خدا کے حکموں کی پابندی میں اپنی زندگی گزارے۔
انسان خدائی تخلیق کا شاہکار ہے، مگر اسی کے ساتھ وہ خدا کے تخلیقی منصوبہ کے ماتحت ہے۔ انھیں دونوں پہلوئوں کی رعایت میں انسانی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔
انسان نے جدیدصنعتی تمدن بنانے میں اس طرح کامیابی حاصل کی ہے کہ ا س نے فطرت کے قانون کو دریافت کر کے اس کو استعمال کیا۔ اسی طرح اگلی دنیا کی وسیع تر کامیابی انسان کو صرف اس وقت ملے گی جبکہ وہ انسانیت کے بارے میں خدا کے تخلیقی نقشہ کو جانے اور اس کو درست طور پر اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔