ذکر
اسلام کی ایک بنیادی تعلیم ذکر ہے۔ ذکر کے معنی یاد کے ہیں یعنی خدا کو یاد کرنا۔ خدا کو بھولنے کی حالت کا نام غفلت ہے اور خدا کو یاد رکھنے کی حالت کا نام ذکر۔
یہ ذکر ایک فطری حقیقت ہے۔ انسان ہر لمحہ ان چیزوں کا تجربہ کرتا ہے جن کا تعلق براہ راست خدا سے ہے۔ وہ سورج اور چاند، دریا اور پہاڑ، ہوا اور پانی کو دیکھتا ہے جو سب کی سب خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اسی طرح تمام مخلوقات جو انسان کے سامنے آتی ہیں وہ سب اس کو خالق کی یاد دلاتی ہیں۔ زمین سے لے کر آسمان تک جو چیزیں ہیں وہ سب خدا کے جمال وکمال کے مظاہر ہیں۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی ہستی کا تعارف ہیں۔
اس طرح جس دنیا میں انسان رہتا ہے اور جن چیزوں کے درمیان وہ صبح وشام گزارتا ہے وہ ہر لمحہ اس کو خدا کی طرف متوجہ کرتی ہیں ان چیزوں سے متاثر ہو کر اس کے دل ودماغ میں ہر لمحہ ربانی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ انھیں کیفیات کے لفظی اظہار کا نام ذکر ہے۔
اسی طرح انسان اپنی زندگی میں بار بار خدا سے تعلق کا تجربہ کرتا ہے۔ وہ اپنے وجود پر غور کرتا ہے تو اس کا دل اس احساس سے بھر جاتا ہے کہ خدا نے اس کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا اور ہر قسم کی اعلیٰ صلاحیتیں وافر مقدار میں اسے دے دیں۔ یہ احساسات اس کی زبان پر مختلف انداز میں آتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ذکر کی ایک صورت ہے۔
اسی طرح انسان کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں طرح طرح کے اتار چڑھائو پیش آتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کے خوش گوار اور نا خوش گوار تجربات سے گزرتا رہتا ہے۔ ان تجربات کے دوران بار بار وہ خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ بار بار وہ مختلف الفاظ میں خدا کو یاد کرتا ہے۔
اسی طرح روز مرہ کی عبادتوں کے درمیان وہ مختلف کلمات کو اپنی زبان سے ادا کرتا ہے۔ یہ کلمات کبھی قرآن وحدیث سے ماخوذ ہوتے ہیں اور کبھی خدا کی خدائی کے اعتراف میں بے ساختہ طور پر اس کی زبان سے جاری ہو جاتے ہیں۔ یہ سب خدا کا ذکر ہے۔